Mafhoom-ul-Quran - Al-An'aam : 104
قَدْ جَآءَكُمْ بَصَآئِرُ مِنْ رَّبِّكُمْ١ۚ فَمَنْ اَبْصَرَ فَلِنَفْسِهٖ١ۚ وَ مَنْ عَمِیَ فَعَلَیْهَا١ؕ وَ مَاۤ اَنَا عَلَیْكُمْ بِحَفِیْظٍ
قَدْ جَآءَكُمْ : آچکیں تمہارے پاس بَصَآئِرُ : نشانیاں مِنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب فَمَنْ : سو جو۔ جس اَبْصَرَ : دیکھ لیا فَلِنَفْسِهٖ : سو اپنے واسطے وَ : اور مَنْ : جو عَمِيَ : اندھا رہا فَعَلَيْهَا : تو اس کی جان پر وَمَآ : اور نہیں اَنَا : میں عَلَيْكُمْ : تم پر بِحَفِيْظٍ : نگہبان
(اے محمد ﷺ ! ان سے) کہہ دو کہ تمہارے پاس اللہ کی طرف سے روشن دلیلیں پہنچ چکی ہیں تو جس نے ان کو کھلی آنکھوں سے دیکھا اس نے اپنا بھلا کیا، اور جو اندھا بنا رہا اس نے اپنے لیے برا کیا اور میں تمہارا ذمہ دار نہیں ہوں۔
کامیابی کا راستہ تشریح : اللہ جل شانہ کی تمام تخلیقات کو بڑی وضاحت سے بیان کرنے کے بعد اس کے واحد ہونے کا یقین دلا دیا گیا تو اب فرمایا کہ جو لوگ قرآن کو سوچ سمجھ کر پوری توجہ اور عقل و فہم کو کام میں لاتے ہوئے پڑھتے ہیں تو ظاہر ہے ایسے ہی لوگوں کا ایمان مضبوط ہوتا ہے اور وہ بیشمار حکمت کی باتیں قرآن میں سے حاصل کر کے اپنی زندگیاں سنوارتے ہیں اللہ کے نیک بندے ایسے ہی ہوتے ہیں اور جو وہ نیکی کی راہ اختیار کرتے ہیں تو اپنا ہی بھلا کرتے ہیں اور جو آنکھیں بند کر کے بےسوچے سمجھے پڑھ جاتے ہیں تو وہ اپنا ہی نقصان کرتے ہیں کیونکہ وہ ایمان کے نور سے محروم رہ کر ذلیل و خوار ہوتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے ہم نے انسان کو خود مختار پیدا کیا ہے اس کو سیدھا راستہ دکھانے کے لیے آپ کو بھیجا ہے۔ آپ نے ان کو قرآن و شریعت کی تعلیم اچھی طرح دے دی ہے اب ان کی مرضی ہے سیدھا راستہ اختیار کریں یا غلط راستہ، اس اختیار کی وجہ سے ہی ہم نیک و بد کو پہچاننا چاہتے ہیں ورنہ ہم سب کو ہی اپنی قدرت سے نیک راستہ پر ہی لگا دیتے مگر انسانوں کا امتحان لینا ضروری تھا۔ اب وہ جو بھی کریں آپ ﷺ اس کے ذمہ دار ہرگز نہیں۔ پھر فرمایا کہ ہم بار بار طرح طرح سے آیات بیان کرتے ہیں تاکہ لوگ یہ نہ کہیں کہ آپ ﷺ یہودیوں سے سن کر سب کچھ بتا رہے ہیں۔ مزید اللہ فرماتا ہے کہ آپ ﷺ اپنے رب کے احکامات پر پوری طرح عمل کریں اور خود کو ان کے سامنے نمونہ بنائیں، پھر جو الٹے راستہ پر چلیں تو آپ فکر نہ کریں آپ کی ذمہ داری پیغام پہنچانا تھی سو آپ ﷺ نے پیغام الٰہی پہنچا دیا۔ ان آیات میں سمجھدار لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کو اس کی نشانیوں سے پہچان لیتے ہیں اور پھر اس کی محبت اور ایمان کی روشنی سے اپنے دلوں کو اس قدر روشن کرلیتے ہیں کہ اللہ کے ولی بن جاتے ہیں جو ایسے لوگوں سے دشمنی کریں اللہ ان سے اعلان جنگ کرتا ہے۔ ان کے بارے میں اللہ نے فرمایا : کہ میں ان کے ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اس کے کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اس کی زبان بن جاتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے، پھر وہ مجھ سے سوال کرے میں اس کو پورا کرتا ہوں۔ مگر دنیاوی علم اور دینی معرفت میں فرق ہے۔ دینی علم کا تعلق اللہ سے ہے اور دنیاوی علم کا تعلق دنیا سے ہے۔ آسان لفظوں میں ہم اس کو یوں کہہ سکتے ہیں کہ کسی بھی بات کی دھن لگ جانا دنیاوی علم ہے۔ مثال کے طور پر نیوٹن کے سر پر سیب گرا تو اس کو اس بات کی دھن لگ گئی کہ سیب میرے سر پر ہی کیوں گرا۔ دائیں، بائیں یا اوپر کیوں نہ چلا گیا۔ عام آدمی کے لیے یہ ایک معمولی بات تھی مگر نیوٹن نے اس کو اپنے ہوش و حواس پر طاری کرلیا اور آخر یہ راز پا لیا کہ زمین میں کشش ہے۔ سیب کا سر پر گرنا کشش ثقل کا ثبوت ہے۔ مگر دینی علم کا تعلق اللہ سے ہے۔ قرآن پاک کی آیات کو جو لوگ سوچ سمجھ کر پڑھتے ہیں۔ ان کے مطالب اور مفہوم پر غور و فکر کرتے ہیں تو وہ معرفت کے درجات حاصل کرتے چلے جاتے ہیں اور یوں اللہ تعالیٰ کی حقیقت سے واقف ہو کر علم و عرفان کے نشے میں مدہوش ہوجاتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ قرآن پاک کو غور سے پڑھا جائے، سمجھا جائے اور اس پر عمل کیا جائے۔ اسی کا فائدہ ہے اور نجات کا باعث بھی ہوسکتا ہے۔ ایسے ہی خود کو پہچانا جاسکتا ہے اور اللہ کو پہچانا جاسکتا ہے اور یہی ہماری زندگیوں کا مقصد ہے۔ اللہ ہمیں دنیا و آخرت کی تمام بھلائیاں عطا کرے۔ آمین۔
Top