Mafhoom-ul-Quran - Al-An'aam : 100
وَ جَعَلُوْا لِلّٰهِ شُرَكَآءَ الْجِنَّ وَ خَلَقَهُمْ وَ خَرَقُوْا لَهٗ بَنِیْنَ وَ بَنٰتٍۭ بِغَیْرِ عِلْمٍ١ؕ سُبْحٰنَهٗ وَ تَعٰلٰى عَمَّا یَصِفُوْنَ۠   ۧ
وَجَعَلُوْا : اور انہوں نے ٹھہرایا لِلّٰهِ : اللہ کا شُرَكَآءَ : شریک الْجِنَّ : جن وَخَلَقَهُمْ : حالانکہ اس نے انہیں پیدا کیا وَخَرَقُوْا : اور تراشتے ہیں لَهٗ : اس کے لیے بَنِيْنَ : بیٹے وَبَنٰتٍ : اور بیٹیاں بِغَيْرِ عِلْمٍ : علم کے بغیر (جہالت سے) سُبْحٰنَهٗ : وہ پاک ہے وَتَعٰلٰى : اور وہ بلند تر عَمَّا : اس سے جو يَصِفُوْنَ : وہ بیان کرتے ہیں
اور ان لوگوں نے جنوں کو اللہ کا شریک ٹھہرایا، حالانکہ ان کو اسی (اللہ) نے پیدا کیا ہے۔ بغیر سمجھے بوجھے جھوٹا بہتان لگایا کہ اللہ کے بیٹے بیٹیاں ہیں۔ اللہ ان تمام باتوں سے بالکل پاک ہے۔ اس کی شان ان تمام باتوں سے بلند ہے۔
کائنات سے اللہ کی پہچان کہ وہ اکیلا ہے تشریح : پہلے آخرت کا ذکر کردیا گیا ہے اور اب اللہ رب العزت کے تخلیقات کے کرشمے بیان کیے جا رہے ہیں جو اللہ کے واحد، بلندو برتر، حکیم وعلیم ہونے کا ثبوت ہیں۔ پچھلی آیات میں اللہ کے انعامات کا ذکر کیا گیا ہے کہ کس طرح اللہ اپنی قدرت سے اپنا موجود ہونا ظاہر کرتا ہے مثلاً گٹھلی سے درخت کا بننا، مردہ سے زندہ اور زندہ سے مردہ کا نکلنا۔ سورج، چاند کا نظام، ستاروں سے راستہ معلوم کرنا، سمندر اور زمین کے بیشمار فائدے، انسان کا سیدنا آدم (علیہ السلام) سے پیدا ہونا اور پھر انسان کی پرورش کے لیے ہر قسم کی اجناس پھول، پھل کا پیدا کرنا، یہ سب کچھ کیا ہے ؟ یہ ایمان لانے والے لوگوں کے لیے بہترین نشانیاں ہیں، جن کو دیکھ کر ہم یہ سوچتے ہیں کہ اس پورے نظام کو چلانے والا ضرور کوئی ہے اور وہ ہے اللہ وحدہٗ لاشریک لہ۔ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ یہ لوگ (کفار) سب کچھ دیکھ کر بھی کبھی جنوں کو الٰہ بناتے ہیں اور کبھی کسی اور کو۔ وہ لوگ اتنی سی عقل بھی نہیں رکھتے کہ جنوں کو بھی اللہ ہی نے پیدا کیا ہے۔ پھر اور بےوقوفی کی باتیں کرتے ہیں کہ ( نعوذ باللہ) اللہ رب العزت کی بھی انسانوں کی طرح اولاد ہے۔ اولاد تو جب ہو اگر اس کی بیوی ہو۔ اس قسم کے رشتوں سے اللہ تعالیٰ بالکل پاک ہے۔ وہ تو بس اکیلا ہے ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اس کا کوئی رشتہ دار نہیں کیونکہ اس کو اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ وہ تو بڑی شان والا ہے۔ اس نے اپنی قدرت سے اتنی بڑی کائنات بنائی ہے۔ زمین و آسمان اور ہر چیز اس کی بنائی ہوئی ہے۔ وہ اس قدر بلند شان والا ہے کہ انسان کی آنکھ اس کو ہرگز نہیں دیکھ سکتی۔ البتہ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ نے اپنا ذرا سا جلوہ دکھایا تھا جس کو وہ برداشت نہ کرسکے اور بےہوش ہو کر گر پڑے جس پہاڑ پر وہ کھڑے تھے اس کے سامنے کا پہاڑ اللہ رب العزت کی ایک معمولی جھلک سے جل گیا تھا۔ اس کا جلوہ انسانی آنکھ برداشت نہیں کرسکتی۔ البتہ قیامت کے دن تمام مؤمنوں کو اللہ کا دیدار نصیب ہوگا۔ (صحیح مسلم ) اسی لیے بار بار تاکید کی جاتی ہے کہ اللہ رب العزت کی طرف رجوع کرو۔ اس کو واحد مانو، اس کی عبادت کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ بنائو۔ اسی نے ہمیں پیدا کیا ہے وہی پالنے والا ہے پھر اسی کے پاس واپس چلے جائیں گے۔ ہماری آسانی کی ہر چیز اس نے پیدا کر رکھی ہے اور وہ اس قدر قدرت والا ہے کہ ہر چیز ہر انسان اور تمام کائنات کا حساب کتاب، بندوبست یہ سب اللہ ہی کرتا ہے اور کوئی یہ سب کچھ کرنے کی قدرت کیسے رکھ سکتا ہے جبکہ انسان کو تو خود اتنا بھی معلوم نہیں کہ کتنے دن وہ یہاں زندہ رہے گا اور کس طرح اس کی زندگی کے سامان ہوں گے ؟ جب کہ اللہ نے لوح محفوظ میں ہر چیز لکھ رکھی ہے۔ ایک دانے کے اندر اس نے اس کے پھولنے پھلنے، بڑھنے اور ختم ہونے کا حساب کتاب رکھ دیا ہوتا ہے۔ بھلا یہ سب کوئی بھی عقل مند سے عقل مند انسان کرسکتا ہے ؟ ہرگز نہیں۔ بندہ تو یہ بھی نہیں جان سکا کہ اس کی موت کب، کہاں اور کیسے ہوگی ؟
Top