Mafhoom-ul-Quran - Al-Waaqia : 7
وَّ كُنْتُمْ اَزْوَاجًا ثَلٰثَةًؕ
وَّكُنْتُمْ : اور ہوجاؤ گے تم اَزْوَاجًا : جماعتوں میں۔ گروہوں میں ثَلٰثَةً : تین
اور تم تین قسم کے ہوجاؤ
تین قسم کے لوگ اور ان کی سزاوجزا تشریح : سب سے پہلے تو میدان حشر کی صورت حال یوں بیان کی گئی ہے کہ وہاں تین گروہوں میں لوگوں کو تقسیم کردیا جائے گا۔ جیسا کہ اکثر قرآن پاک میں داہنے ہاتھ کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ اور بائیں طرف کو نحوست اور بد فالی قرار دیا گیا ہے عربی میں بائیں ہاتھ کو شومی کہا جاتا ہے اسی سے اردو میں شومئی قسمت بنا ہے اور پھر سب سے اگلے گروہ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے اس گروہ کو بہترین، متقی، پرہیزگار اور ہر نیکی کے کام میں سب سے آگے بڑھنے والے برگزیدہ لوگ شمار ہوتے ہیں اسکے بعد اولین، آخرین اور سابقوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس میں علماء کرام کا کافی اختلاف ہے جس میں پڑنے سے بہتر ہے کہ درس قرآن کی تفسیر پر یقین کرلیا جائے۔ لکھتے ہیں کہ جو سب سے پہلے ایمان لائے انکے درجے سب سے بلند ہوں گے، ان کا درجہ اللہ کے قریب ہوگا ان میں پہلے زمانے والوں کی تعداد زیادہ ہوگی اور پچھلوں کی کم ' (جلد ساتویں صفحہ 88) ۔ جیسا کہ ظاہر ہے اللہ کے مقبول ترین اور جنت میں اعلیٰ ترین درجات کے وارث یہ سب سے اگلا گروہ ہوگا۔ پھر دوسرا درجہ دائیں ہاتھ کے گروہ کا ہوگا وہ بھی جنت کے وارث ہوں گے مگر دوسرے درجہ کی جنت ملے گی اور پھر بائیں ہاتھ والا گروہ یہ تو بالکل بد نصیب گناہ گاروں کا گروہ ہوگا جن کے لیے دوزخ کی سختیوں اور آخرت کی بد نصیبوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ محض قصہ کہانی نہیں بلکہ قرآن پاک اور احادیث میں ان تمام حقیقتوں کو بڑے واضح طور پر کئی مرتبہ بیان کیا جا چکا ہے۔ اور اس کا ثبوت ہماری یہ زندگی ہے۔ اور اس دنیا کے ہر قسم کے آرام و آسائش ہیں۔ تو آخرت میں ہمیں اپنے اس مادی جسم کے ساتھ نیک اعمال کے بدلے میں اس جہاں سے زیادہ آرام و آسائش اور راحت و سکون کیوں نہیں دیا جاسکتا ؟ بندے کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ اس فانی زندگی میں ہمیشہ رہنے والی بہترین آرام و آسائش کی زندگی کا خیال کرے اور ہر دم اس آخرت کی زندگی کے لیے نیک اعمال واطوار اپنائے۔ اس زندگی اور آخرت کی زندگی کے درمیان ایک مرحلہ آتا ہے۔ جسے عالم برزخ کہا گیا ہے روایات شاہد ہیں کہ اس دوران روح اور جسم کا رشتہ قائم رہتا ہے۔ مثلاً روایت ہے جو شخص اپنے کسی شنا سا کی قبر سے گزرے اور اسے سلام کہے، تو حق تعالیٰ اس کی روح کو لوٹا دیتے ہیں، اور وہ اس کے سلام کا جواب دیتا ہے۔ (اضواء البیان) اسی ضمن میں کچھ احادیث ملاحظہ ہوں۔ حضرت عائشہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں سے پوچھا ' جانتے ہو قیامت کے روزکون لوگ سب سے پہلے پہنچ کر اللہ کے سایہ میں جگہ پائیں گے ؟ لوگوں نے عرض کیا، اللہ اور اس کا رسول ﷺ ہی زیادہ جانتے ہیں۔ فرمایا وہ جن کا حال یہ تھا کہ جب ان کے آگے حق پیش کیا گیا تو انہوں نے قبول کرلیا۔ جب ان سے حق مانگا گیا تو انہوں نے ادا کردیا اور دوسروں کے معاملے میں ان کا فیصلہ وہی کچھ تھا جو خود اپنی ذات کے معاملہ میں تھا (مسند احمد) ۔ اسی طرح آیات 36-35 اور 37 کی مناسبت سے عورتوں کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا۔ ابن ابی حاتم نے حضرت سلمہ ؓ عنہابن یزید کی یہ روایت نقل کی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا۔ اس سے مراد دنیا کی عورتیں ہیں خواہ وہ با کرہ مری ہوں یا شادی شدہ۔ ہم سن ہونے کی وضاحت حدیث کی روشنی میں یوں کی گئی ہے۔ حدیث میں آتا ہے۔ اہل جنت جب جنت میں داخل ہوں گے تو ان کے جسم بالوں سے صاف ہوں گے مسیں بھیگ رہی ہوں گی مگر داڑھی نہ نکلی ہوگی، گورے چٹے ہوں گے، گٹھے ہوئے بدن ہوں گے، آنکھیں سر مگین ہوں گی، سب کی عمریں 33 سال کی ہوں گی۔ (مسند احمد مرویات ابی ہریرہ ؓ اب ذکر ہوجائے بائیں طرف والے گروہ کا۔ جیسا کہ مذکورہ آیات میں ان کا حال بیان کیا گیا ہے۔ انتہائی خوف ناک، درد ناک اور دل کو ہلا دینے والا نقشہ کھینچا گیا ہے جس قدر خوبصورت زندگی جنت حاصل کرنے والوں کی ہوگی اس قدر بھیانک زندگی بائیں ہاتھ والے یعنی دوزخ میں جانے والوں کی ہوگی۔ اس کو احادیث میں یوں واضح کیا گـیا ہے۔ تھوہر جو دوزخیوں کی غذا ہوگی اس کے بارے میں فرمایا، اگر زقوم (تھوہر) کا ایک قطرہ بھی دنیا میں گر پڑے تو دنیا والوں کے لیے ان کی زندگی اور رہائش کو برباد کر دے۔ پھر بھلا اس کا کیا حال ہوگا ؟ جس کا کھانا ہی یہ درخت ہوگا۔ (ترمذی /4، ابن ماجہ، زہد /38، احمد /301) ۔ جہنم کی آگ کے بارے میں رسول کریم ﷺ نے فرمایا جس آگ کو تم جلاتے ہو، دوزخ کی آگ کی گرمی کے سترویں حصہ میں سے ایک ہے۔ اس پر صحابہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! اللہ کی قسم یہی کافی تھی، فرمایا اس سے 69 واں حصہ اس میں گرمی زیادہ ہے۔ (متفق علیہ الفاظ مسلم کے ہیں، بخاری ) ۔ اسی طرح دوسری حدیث ہے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ' کیا تم دنیا کی آگ کی طرح جہنم کی آگ کو بھی سرخ سمجھتے ہو ؟ بلکہ وہ تو کو لتار سے کہیں زیادہ سیاہ ہے۔ (موطا =156/3) جنتیوں کی خوبصورتی کے مقابلہ میں دوزخیوں کی بد صورتی کا حدیث میں یوں ذکر کیا گیا ہے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا یعنی ان کو آگ بھون دے گی، جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اوپر والا ہونٹ سکڑ کر سر کے بیچ میں آلگے گا اور نچلا ہونٹ ناف تک لمبا ہوجائے گا (احمد 88/3 ترمذی جہنم 59) ۔ ایک اور حدیث شریف میں دوزخیوں کا حال یوں بیان کیا ـگـیا ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا، بعض دوزخیوں کو آگ ٹخنوں تک پکڑ لے گی، بعض کو گھٹنوں تک، بعض کو کمر تک، بعض کو گردن تک اور بعض کو ہنسلی تک (مسلم 150/8) ۔ کس قدر زبردست عذاب ہے منکرین اور کافروں کے لیے۔ ' اے رب ہمارے ! ہمیں دنیا میں بھلائی اور آخرت میں بھی بھلائی دے اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا ( سورة البقرہ آیت 201) ۔ کفار کو تنبیہ کی گئی ہے۔ ' ہم نے تم کو پہلی بار بھی تو پیدا کیا ہے پھر تم دوبارہ اٹھنے کو کیوں سچ نہیں سمجھتے '۔ (آیت 57)
Top