Mafhoom-ul-Quran - Al-Waaqia : 58
اَفَرَءَیْتُمْ مَّا تُمْنُوْنَؕ
اَفَرَءَيْتُمْ : کیا بھلا دیکھا تم نے مَّا تُمْنُوْنَ : جو نطفہ تم ٹپکاتے ہو
دیکھو تو کہ جس نطفے کو تم عورتوں کے رحم میں ڈالتے ہو
مسلمان کے بنیادی عقائد توحید و آخرت تشریح : ان آیات کو پڑھنے کے بعد بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ اللہ ہمارا خالق ہے ہم اور ہماری تمام کائنات اور کائنات کی ہر چیز صرف اور صرف اللہ کی حکمت اور خلاقی کا اظہار کرتی ہے لیکن وہ تمام راز، غیب کی باتیں اور زندگی کا راز یعنی جن باتوں کا انسان کو اس زندگی میں جان لینا ضروری نہیں وہ راز اللہ تعالیٰ نے انسان سے جنوں سے پوشیدہ رکھے۔ مثلاً جینے مرنے کا راز قیامت کا راز کہ کب آئے گی مستقبل کا حال۔ کہ کیا ہونے والا ہے ؟ وغیرہ وغیرہ یہ اور اس طرح کے بیشمار راز ہیں جو انسان کو ہرگز کسی صورت بھی معلوم نہیں ہوسکتے یہ ایک حقیقت ہے اور یہی حقیقت اگر انسان دل سے مان لے تو وہ بڑی آسانی اور سچائی کے ساتھ اللہ کو مان سکتا ہے جان سکتا ہے اس کے سامنے عجز و انکسار کے ساتھ جھک سکتا ہے وہ اللہ کے خوف کو ہر وقت محسوس کرسکتا ہے۔ اسی کا نام ہے تقویٰ ۔ اور جس نے تقویٰ حاصل کرلیا گویا وہ سکون پا گیا کیونکہ اللہ کی ذات کو اپنے اوپر طاری کرلینے کا نام ہے۔ کہ سکون و اطمینان سے پوری طرح منسلک ہونے کا راز مل گیا۔ اور یہی کامیابی کی نشانی ہے۔ ورنہ جو لوگ اس دنیا کی عارضی خوشیوں، مال و دولت آل اولاد اور جائیداد کو ہی خوشیوں اور سکون کا ذریعہ سمجھ لیتے ہیں وہ کیونکہ اللہ سے دور ہوجاتے ہیں اس لیے ہمیشہ تفکرات میں ہی زندگی گزار دیتے ہیں جو ان کو دنیا و آخرت دونوں میں ناکام کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ یہ بات خوب اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ کائنات میں کوئی بھی چیز ایسی نہیں کہ جو اللہ سے جڑی ہوئی نہ ہو اور اس کے حکم سے باہر ہو یا اللہ کے سامنے جھکنے والی نہ ہو۔ ہر چیز اللہ کے حکم سے ہوتی ہے اور اسی لیے اسی کے سامنے جھکتی ہے اور پھر ختم ہوجانے کے بعد اسی کی طرف ہی لوٹائی جائے گی۔ اسی پختہ ایمان کی وجہ سے ہی تو مسلمان ہر نقصان پر بولتا ہے ' بیشک ہم اللہ کے لیے ہی ہیں اور اسی کی طرف ہی لوٹائے جائیں گے۔ غرض توحید پر مکمل یقین انسان میں بہت سی صفات پیدا کردیتا ہے یعنی نفس پاکیزہ ہوجاتا ہے۔ علم و عرفان کی وجہ سے خود اعتمادی پیدا ہوجاتی ہے۔ مایوسی اور بےیقینی ختم ہوجاتی ہے۔ قناعت اور بےنیازی پیدا ہوجاتی ہے اور یوں انسان میں بےپناہ صبر و توکل اور عزم و حوصلہ کی صفات پیدا ہوجاتی ہیں جو اس کو مرد آہن بنا دیتی ہیں۔ اور کامیاب و کامران کردیتی ہیں ایسے ہی مرد مومن کی تعریف علامہ اقبال (رح) نے یوں کی ہے۔ خاکی و نوری نہاد بندہ مولا صفات ہر دو جہاں سے غنی اس کا دل بےنیاز (اقبال) اتنا کچھ بتا چکنے کے بعد رب العٰلمین حکم دیتا ہے۔ تو تم اپنے خدائے بزرگ کی تسبیح کرو۔ (74) کون ہے جو نافرمانی کرسکے گا ؟ سوائے ان لوگوں کے جو اس راہ مبارک پر آنا ہی نہیں چاہتے اور جن کے دل، ضمیر اور روحیں مردہ ہوچکے ہیں۔ تو ایسے لوگوں کو اپنے بد ترین انجام کے لیے تیار رہنا چاہیے جو ان کو موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر ملے گا۔ ضرور ملے گا کیونکہ یہ اس رب بزرگ و برتر کا قول ہے جس نے اس کو پیدا کیا جس کے ہاتھ میں اس کی موت ہے اور جو بڑا سخت حساب لینے والا ہے۔ اور یہ سب قرآن پاک میں درج ہے۔ قرآن پاک کی فضیلت کے بارے میں اگلی آیات ملاحظہ ہوں۔
Top