بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mafhoom-ul-Quran - Az-Zumar : 1
تَنْزِیْلُ الْكِتٰبِ مِنَ اللّٰهِ الْعَزِیْزِ الْحَكِیْمِ
تَنْزِيْلُ : نازل کیا جانا الْكِتٰبِ : یہ کتاب مِنَ اللّٰهِ : اللہ کی طرف سے الْعَزِيْزِ : غالب الْحَكِيْمِ : حکمت والا
اس کتاب کا اتارا جانا اللہ غالب اور حکمت والے کی طرف سے ہے
انسانی پیدائش اللہ کے وجود کی نشانی ہے تشریح : ان آیات میں اللہ کی وحدانیت ‘ قرآن کی سچائی اور حضور پاک ﷺ کی سچائی کو بڑی صاف صورت میں بیان کیا گیا ہے کفر و شرک کی بھرپور مذمت کی گئی ہے۔ یہ سب باتیں ہمارے سامنے ثبوت کے ساتھ موجود ہیں۔ آج ہم باقی تمام مظاہر قدرت کو چھوڑ کر صرف انسانی تخلیق کے بارے میں غور کرتے ہیں یہ حیاتیاتی راز یعنی انسان اور انسان کی طرح پیدا ہونے والے جانوروں کا راز اس آیت 6 میں بڑے ہی مختصر الفاظ میں بیان کردیا گیا ہے۔ ڈاکٹر ہلوک نور باقی صاحب نے اس راز کو واضح کیا ہے ملاحظہ ہو لکھتے ہیں : ” جیسا کہ ظاہر ہے آیت کا یہ حصہ ایک انسان کی ساخت کیلئے ماں کے پیٹ میں تین مختلف تاریکیوں کا ذکر کرتا ہے۔ اس لیے یہ اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ ایک زرخیز شدہ انڈے کا خلیہ یا زائیگوٹ تین تاریک حالتوں سے گزرتا ہے۔ پندرہ صدیاں قبل بلکہ صرف ایک صدی پہلے تک یہ سمجھا جاتا تھا کہ ایک انسان کی پیدائش کا عمل صرف ماں کے پیٹ میں موجود رحم میں ہوتا ہے یعنی صرف ایک تاریک حالت میں مگر جدید طبی سائنس کی معلومات کا خلاصہ یہ ہے۔ پہلا مرحلہ : جب بیضہ والا خلیہ رحم کی دو نلیوں میں زرخیز پذیر ہوتا ہے (جڑ پکڑ لیتا ہے) اور یہ عمل صرف اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے اور یہ مقام ‘ رحم مادر میں انتہائی انوکھا اور نازک مقام ہوتا ہے۔ یہ باریک ترین خلیہ (Cell) ہی ہے جس میں ہر چیز تیار ہوتی ہے۔ ہماری آئندہ زندگی کی مکمل تفصیلات اسی مقام پر متعین ہوجاتی ہیں ‘ اس مقام سے آگے یہ دوسرے طبقے میں پہنچایا جاتا ہے۔ دوسرا مرحلہ : یہ خلیہ (Cell) رحم کی لعاب دار جھلی میں پہنچتا ہے یہ تاریک طبقہ ایک جنگل سے ملتا جلتا ہے۔ یہاں یہ خلیہ جڑ پکڑ جاتا ہے اور اپنے آپ کو وہیں مناسب جگہ پر قائم کرلیتا ہے یہ مقام ایک سرنگ کی طرح جگہ میں ہوتا ہے۔ یہ بچے کی خوراک ماں کے جسم سے مہیا کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ زائیگوٹ اسی جگہ تقسیم کا عمل شروع کرتا ہے۔ یہ ابتدائی تقسیم انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہے اس لیے کہ بچے کی ابتداء (Embryo) کے پہلے مرحلہ میں تمام اعضاء کی تشکیل کی ابتداء بھی اسی دوسرے تاریک طبقہ میں شروع ہوتی ہے اصل میں بارآور بیضہ تخلیق کی ابتداء کا پہلہ مرحلہ ہوتا ہے جبکہ خلیوں کی ابتدائی تقسیم اس کے دوسرے مرحلے کی تشکیل کرتی ہے۔ یعنی مختلف انسانی خصوصیات کا باہم مل کر یک جا ہونا ‘ اس پہلے مرحلے میں قیام پذیر ہوتا ہے۔ جبکہ مختلف اعضاء کے بنیادی ڈھانچے کی تشکیل دوسرے مرحلے میں شروع ہوتی ہے۔ تیسرا مرحلہ : یہاں ایک پوٹلی یعنی (Amniotic Sae) کے اردگرد ایک مخصوص مائع کی صورت میں پیدا ہوجاتی ہے، پھر ہمارے اعضاء اور دوسرا حیاتیاتی نظام اسی پوٹلی کے اندر ارتقاء کے مراحل طے کرتا ہے۔ یہ تیسرا تاریک مر حلہ ہوتا ہے۔ اس طرح انسان کی تشکیل کا سلسلہ ماں کے پیٹ میں تین مختلف طبقوں میں ایک تین جہتی کہانی بیان کرتا ہے۔ چناچہ یہ آیات کریمہ ان تمام سائنسی حقائق کو ظاہر کرتی ہیں جن کی مدد سے ابھی حال ہی میں ایسی دریافتیں ہوئی ہیں جو بےحد صحیح انداز میں حیاتیاتی معجزے بیان کرتی نظر آتی ہیں۔ اور پھر یہ آیت کریمہ ایک چیلنج کے ساتھ اختتام پذیر ہوتی ہے کہ ” تم کس طرح جھٹلا سکتے ہو “۔ یہ یقینی طور پر قرآن کی عظمت کی نشاندہی ہے کہ اس آیت نے ماں کے پیٹ میں انسان کی تشکیل کی ایک ایسی کہانی پندرہ صدیاں قبل اس طرح کھول کر بیان کردی جب کہ اس وقت ارتقائی مرحلوں (Embryogenesis) کے متعلق کسی قسم کے حقائق موجود نہ تھے۔ (از قرآنی آیات اور سائنسی حقائق) کیا یہ سب حقائق انسان کے ایمان کی مضبوطی کیلئے کافی نہیں انسان کی پیدائش کتنا بڑا معجزہ ہے۔ قرآن کیا ہے ؟ بندے کو اس کی حقیقت اور اس کو دی گئی نعمتوں کے بارے میں معلومات کی بےمثال کتاب ہے۔ کیوں نہ ہو۔ اس کا بھیجنے والا اور ہم تک پہنچانے والا خود بےمثال ہے۔ وہ ایک اللہ ہے جو ہمارا اور ہماری تمام ضروریات کا خالق ہے۔ اسی لیے تو اس کو زبردست حکمتوں والا ‘ خدائے واحد زور آور، زبردست گناہ بخشنے والا اور تمام بادشاہوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔ اس لیے صرف اسی سے ہی مدد مانگنی چاہیے اور کوئی مدد کرنے والا نہیں۔ ہاں البتہ جو وسیلے اس نے بنا دئیے ہیں وہ اللہ کی مرضی کے مطابق آپس میں مدد ضرور کرسکتے ہیں مثلاً ماں باپ ‘ بہن بھائی ‘ رشتہ دار ‘ عزیز و اقارب اور پوری انسانی برادری۔ ہم سب کو اللہ نے حقوق العباد کی ڈوری میں پر وکر بقائے باہمی کا وسیلہ بنا دیا ہے۔ اسی لیے علامہ اقبال (رح) نے کہا۔ دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کرّو بیاں کیسی دلچسپ داستان ہے انسان کی۔ اللہ نے ہمیں اپنا نائب بنایا فرشتوں سے سجدہ کروایا ‘ علم اور ارادہ دے دیا مگر یہاں مرنے کی پابندی وہاں جینے کی پابندی اور اسی مرنے کی پابندی اور جینے کی پابندی میں ہی انسان کی تخلیق کا راز پوشیدہ ہے۔ پتہ یہ چلتا ہے کہ ہم بےمقصد پیدا نہیں کیے گئے۔
Top