Mafhoom-ul-Quran - Al-Baqara : 253
تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ١ۘ مِنْهُمْ مَّنْ كَلَّمَ اللّٰهُ وَ رَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجٰتٍ١ؕ وَ اٰتَیْنَا عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ وَ اَیَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ١ؕ وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِیْنَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُمُ الْبَیِّنٰتُ وَ لٰكِنِ اخْتَلَفُوْا فَمِنْهُمْ مَّنْ اٰمَنَ وَ مِنْهُمْ مَّنْ كَفَرَ١ؕ وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ مَا اقْتَتَلُوْا١۫ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ یَفْعَلُ مَا یُرِیْدُ۠   ۧ
تِلْكَ : یہ الرُّسُلُ : رسول (جمع) فَضَّلْنَا : ہم نے فضیلت دی بَعْضَھُمْ : ان کے بعض عَلٰي : پر بَعْضٍ : بعض مِنْھُمْ : ان سے مَّنْ : جس كَلَّمَ : کلام کیا اللّٰهُ : اللہ وَرَفَعَ : اور بلند کیے بَعْضَھُمْ : ان کے بعض دَرَجٰتٍ : درجے وَاٰتَيْنَا : اور ہم نے دی عِيْسَى : عیسیٰ ابْنَ مَرْيَمَ : مریم کا بیٹا الْبَيِّنٰتِ : کھلی نشانیاں وَاَيَّدْنٰهُ : اور اس کی تائید کی ہم نے بِرُوْحِ الْقُدُسِ : روح القدس (جبرائیل) سے وَلَوْ : اور اگر شَآءَ اللّٰهُ : چاہتا اللہ مَا : نہ اقْتَتَلَ : باہم لڑتے الَّذِيْنَ : وہ جو مِنْ بَعْدِ : بعد ھِمْ : ان مِّنْ بَعْدِ : بعد سے مَا جَآءَتْھُمُ : جو (جب) آگئی ان کے پاس الْبَيِّنٰتُ : کھلی نشانیاں وَلٰكِنِ : اور لیکن اخْتَلَفُوْا : انہوں نے اختلاف کیا فَمِنْھُمْ : پھر ان سے مَّنْ : جو۔ کوئی اٰمَنَ : ایمان لایا وَمِنْھُمْ : اور ان سے مَّنْ : کوئی کسی كَفَرَ : کفر کیا وَلَوْ : اور اگر شَآءَ اللّٰهُ : چاہتا اللہ مَا اقْتَتَلُوْا : وہ باہم نہ لڑتے وَلٰكِنَّ : اور لیکن اللّٰهَ : اللہ يَفْعَلُ : کرتا ہے مَا يُرِيْدُ : جو وہ چاہتا ہے
یہ سب رسول ہیں ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی۔ ان میں سے کوئی وہ ہے جس سے اللہ نے کلام فرمایا اور بعض کے درجے بلند کئے اور ہم نے مریم کے بیٹے عیسیٰ (علیہ السلام) کو کھلے معجزے دیئے اور اس کو روح القدس (جبرئیل (علیہ السلام) کے ساتھ قوت دی اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو جو لوگ ان پیغمبروں کے بعد ہوئے آپس میں نہ لڑتے جب کہ ان کے پاس صاف حکم پہنچ چکے تھے لیکن انہوں نے باہم اختلاف کیا چناچہ ان میں سے کچھ وہ ہیں جو ایمان لائے اور کچھ وہ ہیں جنہوں نے کفر کیا۔ اور اگر اللہ چاہتا تو وہ باہم نہ لڑتے۔ لیکن اللہ جو چاہے کرتا ہے
تیسرا پارہ سورة البقرہ کے آخری 8 رکوع اور سورة آل عمران کے ابتدائی 9 رکوع، اس طرح کل 17 رکوع اور 124 آیات پر مشتمل ہے۔ اس پارہ کے شروع میں رسولوں کے درجات کا بیان ہے، انفاق فی سبیل اللہ کی ہدایات، اللہ تعالیٰ کی توحید و عظمت، تین واقعات کا ذکر ہے۔ پھر انفاق فی سبیل اللہ، صدقہ، قرض، سود، تجارت، کا ذکر ہے پھر سورة آل عمران شروع ہوتی ہے اس کے بعد محکمات و متشابہات کا بیان پھر بنو نجران کا واقعہ پھر آیت 33 سے حضرت مریم ، آیت 64 اہل کتاب اور توحید کا بیان، انبیاء کے منصب اور آخر میں توحید کی دعوت اور دین اسلام کی فضیلتیں بیان کی گئی ہیں۔ رسولوں کے درجات تشریح : اس آیت میں کچھ رابطہ پچھلی آیت سے بھی ہے۔ کیونکہ اس میں یہ وضاحت کی گئی تھی کہ محمد ﷺ رسولوں میں شامل ہیں مگر وہ بھی باقی نبیوں کی طرح اللہ کا پیغام پہنچانے والے ہیں اور قابل عزت ہیں مگر یہ نہیں کہ ان کو عبادت کے لائق سمجھا جائے کیونکہ عبادت تو صرف اللہ ہی کی ہوسکتی ہے۔ ویسے تو بیشمار رسول دنیا میں لوگوں کو راہ دکھانے کے لئے بھیجے گئے ہیں مگر ان سب کو درجات علیحدہ علیحدہ ملے اللہ تعالیٰ نے ان کو مختلف فضیلتیں دی ہیں۔ جیسا کہ محمد ﷺ کا درجہ تمام نبیوں اور رسولوں سے بلند ہے۔ کیونکہ باقی بنی کسی ایک قوم یا ملک کے لئے بھیجے گئے جب کہ آپ ﷺ کو تمام دنیا کے لئے رحمت اور ہدایت بنا کر بھیجا گیا ہے اور آپ ﷺ کی تعلیمات پوری دنیا کے لئے ہیں اور پھر آپ ﷺ آخری دین اور آخری کتاب کے لانے والے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کو مکمل انسان، نبی اور رسول بنایا گیا کہ آپ ﷺ کے بعد نہ کسی نبی کی ضرورت رہی، نہ دین کی اور نہ ہی کسی آسمانی کتاب کی پھر بھی آپ ﷺ کا درجہ صرف پیغمبر کا ہی ہے خالق یا معبود کا نہیں کیونکہ وہ صرف اللہ وحدہ لاشریک کا ہی مقام ہے۔ اسی نے تمام بنی بھیجے، کچھ کا درجہ اونچا کچھ کا نیچا ہے۔ کسی کے ساتھ اللہ نے بات چیت کی اور ان کو موسیٰ کلیم اللہ کہا گیا یہ عزت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ملی، اسی طرح عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کا درجہ اپنی جگہ ہے کہ ان کو بیشمار ایسے معجزات دیئے گئے کہ لوگ ان پر یقین کرنے کے لئے مجبور ہوجاتے تھے اس کے علاوہ روح القدس یعنی حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کی مدد بھی ان کو تائید کی صورت میں دی گئی تھی۔ ابن مریم یعنی مریم کے بیٹے کہہ کر یہ وضاحت کردی کہ وہ خدا نہ تھے، بلکہ ایک عورت حضرت مریم کی اولاد تھے روح القدس (جبرئیل (علیہ السلام) بھی ایک مخلوق ہی ہیں جو کہ اللہ کی طرف سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی حفاظت اور مدد کے لئے مقرر کئے گئے تھے۔ یہ سب نبی اور ان کے علاوہ بیشمار نبی اور رسول لوگوں کی ہدایت کے لئے وقتاً فوقتاً بھیجے جاتے رہے۔ کچھ کو آسمانی کتابیں دی گئیں اور کچھ نے دوسروں کی کتابوں سے تعلیم دی لیکن اتنی زیادہ کھلی نشانیوں اور ہدایات کے باوجود بھی لوگ آپس میں لڑتے رہے کچھ ایمان لے آئے اور کچھ نے کفر کیا۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ اللہ نے انسان کو پورا اختیار دے رکھا ہے کہ وہ نیکی کا راستہ اختیار کرے یا بدی کا۔ ہدایت کا راستہ بتانے کے بعد انسان کی اپنی مرضی پر چھوڑ دیا گیا کہ گناہ کرے یا ثواب۔ اللہ تعالیٰ کا بندوں کو آزمانے کا یہ ایک خاص طریقہ ہے ورنہ تو اللہ تعالیٰ بہت زیادہ اختیار اور طاقت وقدرت رکھتا ہے۔ وہ اگر چاہتا تو دنیا میں کوئی انسان بھی اس کے حکم کے خلاف نہ چل سکتا۔ مگر اس نے تمام وسیلے انسان کو دے دیئے۔ ہدایت کے لئے کتابیں اور رسول بھیج دیئے مگر راہ اختیار کرنا بندے کو دے دیا یہ اس کی مرضی پر چھوڑ دیا۔ نیک بن کر جنت کمائے یا بد بن کر دوزخ میں جائے۔ حدیث ہے : اللہ رحیم ہے رحم کو پسند کرتا ہے۔ اپنی رحمت ہر رحیم پر رکھتا ہے۔ (طبرانی)
Top