Mafhoom-ul-Quran - Al-Baqara : 193
وَ قٰتِلُوْهُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّ یَكُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰهِ١ؕ فَاِنِ انْتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ اِلَّا عَلَى الظّٰلِمِیْنَ
وَقٰتِلُوْھُمْ : اور تم ان سے لڑو حَتّٰى : یہانتک کہ لَا تَكُوْنَ : نہ رہے فِتْنَةٌ : کوئی فتنہ وَّيَكُوْنَ : اور ہوجائے الدِّيْنُ : دین لِلّٰهِ : اللہ کے لیے فَاِنِ : پس اگر انْتَهَوْا : وہ باز آجائیں فَلَا : تو نہیں عُدْوَانَ : زیادتی اِلَّا : سوائے عَلَي : پر الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
تم ان سے لڑتے رہو۔ یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کے لئے ہوجائے پھر اگر وہ باز آجائیں تو سمجھ لو کہ ظالموں کے سوا اور کسی پر دست درازی جائز نہیں
جنگ کی آخری حد تشریح : اس آیت میں لڑائی کی آخری حد بیان کردی گئی ہے۔ اسلام زبردستی اور ظلم کی اجازت نہیں دیتا، بلکہ اسلام کا مطلب ہے امن و سکون۔ یعنی قانون اللہ کا نافذ ہو دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ امن و سکون سے رہیں، ان کی عبادت گا ہیں بالکل محفوظ رہیں، اسلام کی راہ میں کسی قسم کی کوئی رکاؤٹ پیدا نہ ہو، امن و سکون کو برقرار رکھنے کے لئے اسلام کے پاس تین راہیں کھلی ہیں۔ (درس قرآن) 1 ۔ لوگوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دے۔ اگر ایمان لے آئیں تو اللہ تعالیٰ ان کے گناہ معاف فرما دے گا۔ 2 ۔ اگر لوگ اسلام قبول کرنے کو تیار نہ ہوں۔ البتہ اسلام کی مخالفت سے باز آنے کا اقرار کرلیں تو شوق سے وہ اسلامی سلطنت میں رہیں اس صورت میں ان کی حفاظت کی ذمہ داری مسلمانوں کے سپرد ہوگی۔ 3 ۔ اگر ان دونوں باتوں پر راضی نہ ہوں اور وہ اللہ کے قانون کی خلاف ورزی کرتے رہیں تو پھر ان کا فیصلہ تلوار سے کردینا چاہیئے ان کی سزا قتل کے سوا اور کوئی نہیں۔ کیونکہ فتنہ ناقابل معافی ہے اور یہ قتل و غارت کی جڑ ہے، اسکو ختم کردینا لازمی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ظالموں کے سوا کسی پر زیادتی روا نہیں رکھی جاسکتی۔ یعنی ظالموں کو ان کے ظلم کا بدلہ ضرور دیا جانا چاہیے۔ حضرت عمران بن حصین ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” کہ میری امت کا ایک گروہ حق کے لئے لڑتا رہے گا، جو ان سے دشمنی کریں گے وہ ان پر غالب رہے گا یہاں تک کہ ان میں سے آخری لوگ مسیح دجال سے لڑیں گے “۔ (ابوداؤد)
Top