Mafhoom-ul-Quran - Al-Baqara : 175
اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَةَ بِالْهُدٰى وَ الْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَةِ١ۚ فَمَاۤ اَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ الَّذِيْنَ : جنہوں نے اشْتَرَوُا : مول لی الضَّلٰلَةَ : گمراہی بِالْهُدٰى : ہدایت کے بدلے وَالْعَذَابَ : اور عذاب بِالْمَغْفِرَةِ : مغفرت کے بدلے فَمَآ : سو کس قدر اَصْبَرَھُمْ : بہت صبر کرنے والے وہ عَلَي : پر النَّارِ : آگ
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے ضلالت خریدی اور مغفرت کے بدلے عذاب مول لیا، کیا عجیب ہے ان کا حوصلہ کہ جہنم کا عذاب برداشت کرنے کے لئے تیار ہیں
گھاٹے کا سودا تشریح : ان آیات میں غلط کار علماء کے بارے میں اللہ تعالیٰ اور بھی وضاحت سے فرماتا ہے کہ غلط بیانی کرنے والے اور تھوڑی سی دنیاوی اجرت کے بدلہ میں گمراہی پھیلانے والے کس قدر بیوقوف اور نقصان دہ تجارت کرنے والے ہیں۔ ان لوگوں کو یہ خیال ذرہ برابر بھی نہیں آتا کہ اس طرح یہ لوگ ہدایت کے بدلے گمراہی خرید رہے ہیں، روشنی کی بجائے تاریکی میں جارہے ہیں، آخرت کی بجائے دنیا کو پسند کر رہے ہیں اور یوں یہ لوگ عارضی فائدوں کی بجائے ہمیشہ کے آرام کو چھوڑ رہے ہیں ان کو یہ خیال بھی نہیں آرہا ہے کہ یہ اتنے بڑے جرم کی سزا میں پھنس رہے ہیں کہ جو سزا مرنے کے بعد ہمیشہ ان کو ملتی رہے گی یہ سب اس لئے ہے کہ حق تعالیٰ نے تو بہترین حق پر مبنی اور سچائی کے راستے دکھانے والی کتاب نازل کی تھی مگر ان جھوٹے اور بیوقوف علماء نے آپس کے اختلافات اور جھگڑوں میں پڑ کر حق سے دور کی راہیں اختیار کرلیں اور لوگوں کو بھی بھٹکا دیا تو ظاہر ہے اس اتنے بڑے جرم کی سزا بھی تو اتنی ہی بڑی، سخت اور ہمیشہ رہنے والی ہوگی اس لئے اس جرم سے بچنے کے لئے خدا کی پناہ مانگنی چاہئے اور بےحد احتیاط سے کام لینا چاہئے۔ مسلمان علماء کو یہودی علماء سے عبرت حاصل کرنی چاہئے۔ ویسے تو زندگی کے ہر شعبہ میں اچھے برے انسان ضرور ہوتے ہیں مگر علماء و مشائخ کا گمراہ ہوجانا، سب سے زیادہ نقصان دہ اور تباہی کا باعث ہوتا ہے۔ جیسا کہ منظور الحق ڈار صاحب اپنی تصنیف ” ہمارا سنگین ترین مسئلہ “ کے صفحہ نمبر 82 میں لکھتے ہیں۔ ” ایک طرف ہم میں جو تھوڑا بہت اسلام پایا جاتا ہے اس میں محترم علماء ربانی اور حق پرست مشائخ کی کوششوں کا بھی حصہ ہے اور دوسری طرف جو برائیاں پائی جاتی ہیں ان میں علمائے سوء (برے) اور غلط قسم کے پیروں، سجادہ نشینوں کی پھیلائی ہوئی ضلالت و گمراہی کا خاصا عمل دخل ہے “ ان کو سخت ترین عذاب دیا جائے گا اسی طرح ہادی برحق ﷺ کا ارشاد ہے کہ : میں اپنی امت کے متعلق گمراہ آئمہ سے شدید ترین خطرہ محسوس کرتا ہوں “۔ (ابوداؤد) شیطان نے روز اول اللہ تعالیٰ سے کہا تھا۔ ” میں تیرے بندوں کو ضرور بہکاؤں گا “۔ ( سورة نساء 119) ” اسی طرح انسانوں میں بھی شیطان ہوتے ہیں اور جنات میں بھی “ ( سورة انعام 112) اس لئے علماء بھی شیطان کا شکار ہوسکتے ہیں اس لئے ہر انسان کو چاہئے کہ آنکھیں بند کرکے بھٹکے ہوئے پیروں اور غلط قسم کے رہنماؤں اور لیڈوں کی باتوں میں آکر اپنی عاقبت ہرگز خراب نہ کریں۔ رہے دنیا پرست علماء سوء تو ان سے اللہ تعالیٰ خوب اچھی طرح حساب لے لیں گے۔ شروع سورت سے آیت 176 کے آخر تک سورة البقرہ کا تقریباً نصف حصہ ہوجاتا ہے۔ یہاں تک اکثر منکرین و مشرکین اور قرآن پاک کا ذکر ہے پھر توحید و رسالت پھر اولاد ابراہیم (علیہ السلام) پر انعامات پھر قبلہ کا تذکرہ اور اس کے بعد صفا ومروہ کا بیان پھر توحید و شرک کی وضاحت پر ختم ہوجاتا ہے۔ گزشتہ حصے میں زیادہ تر خطاب مشرکین کو کیا گیا ساتھ ساتھ مسلمانوں کو بھی خطاب کیا گیا۔ اب بقیہ سورة البقرہ میں زیادہ تر مسلمانوں کو ہی خطاب کیا گیا ہے۔
Top