Mafhoom-ul-Quran - Al-Baqara : 150
وَ مِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ١ؕ وَ حَیْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ شَطْرَهٗ١ۙ لِئَلَّا یَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَیْكُمْ حُجَّةٌ١ۙۗ اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْهُمْ١ۗ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَ اخْشَوْنِیْ١ۗ وَ لِاُتِمَّ نِعْمَتِیْ عَلَیْكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَۙۛ
وَمِنْ حَيْثُ : اور جہاں سے خَرَجْتَ : آپ نکلیں فَوَلِّ : پس کرلیں وَجْهَكَ : اپنا رخ شَطْرَ : طرف الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ : مسجد حرام وَحَيْثُ مَا : اور جہاں کہیں كُنْتُمْ : تم ہو فَوَلُّوْا : سو کرلو وُجُوْھَكُمْ : اپنے رخ شَطْرَهٗ : اس کی طرف لِئَلَّا : تاکہ نہ يَكُوْنَ : رہے لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے عَلَيْكُمْ : تم پر حُجَّةٌ : کوئی دلیل اِلَّا : سوائے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ ظَلَمُوْا : بےانصاف مِنْهُمْ : ان سے فَلَا تَخْشَوْھُمْ : سو تم نہ ڈرو ان سے وَاخْشَوْنِيْ : اور ڈرو مجھ سے وَلِاُتِمَّ : تاکہ میں پوری کردوں نِعْمَتِىْ : اپنی نعمت عَلَيْكُمْ : تم پر وَلَعَلَّكُمْ : اور تاکہ تم تَهْتَدُوْنَ : ہدایت پاؤ
اور جہاں بھی تم ہو اسی کی طرف منہ کرکے نماز پڑھو۔ تاکہ لوگوں کو تمہارے خلاف کوئی حجت نہ ملے، ہاں ان میں سے جو ظالم ہیں (ان کی زبان کسی حال میں بند نہ ہوگی) تو ان سے تم نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو اور اس لئے کہ میں تم پر اپنی نعمت پوری کر دوں (اور اس موقع پر کہ میرے اس حکم کی پیروی سے) تم فلاح کا راستہ پاؤ گے
خانہ کعبہ، محمد ﷺ کی خصوصیات اور ذکر و شکر تشریح : درس قرآن میں آیت 149 اور 150 کی تشریح ان الفاظ میں کی گئی ہے : ” ان آیات میں بھی قبلہ کی تبدیلی کا حکم مذکور ہے اور ساتھ ہی ارشاد ہے کہ ایسا نہ ہو لوگوں کو تمہارے عمل سے حجت بازی کا موقع ملے اور مکہ کے کافر و مشرک یہ کہہ سکیں کہ یہ دین ابراہیمی کے اچھے پیرو کار ہیں جو ان کے کعبہ کو قبلہ بھی نہیں مانتے، جہاں تک ڈر کا تعلق ہے وہ صرف اللہ کا چاہئے۔ فضل و کرم کی تکمیل اور ہدایت و کامرانی اسی کے اختیار میں ہے “۔ جیسا کہ پہلے اکثر اسباق میں اسلام کی فضیلتوں اور نبی کریم ﷺ کی خصوصیات، تعلیمات اور مسلمان کی فضیلتوں کا ذکر بڑی تفصیل سے ہوچکا ہے۔ آیت 151 میں انہی تمام نعمتوں کا ذکر مختصراً کیا گیا ہے کہ تمہیں میں سے آپ ﷺ کو تمہارے لیے نبی بنا کر بھیجا گیا ہے۔ جن کی خصوصیات یہ ہیں۔ 1 ۔ اللہ کی آیات پڑھ کر سناتے ہیں۔ 2 ۔ لوگوں کو نیکی کی تعلیم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں۔ 3 ۔ کتاب الٰہی صرف سناتے ہی نہیں بلکہ عمل بھی کرکے دکھاتے ہیں اور کتاب کی تمام حکمتیں اور نکات اچھی طرح سمجھاتے ہیں۔ 4 ۔ تمہیں ہر وہ بات بتلاتے ہیں جس کی تمہیں پہلے خبر نہ تھی۔ تمہارے اخلاق و کردار اور زندگیاں سنوارنے اور زندگی گزارنے کے اتنے اچھے اصول و ضوابط بتائے کہ جن پر عمل کرکے تم واقعی تمام قوموں سے اچھی اور اعلیٰ قوم بن سکتے ہو پھر بار بار تاکید اس بات کی ہوتی رہی ہے کہ اسلام کو پوری طرح قبول کرو اس سے ذرا بھی ادھر ادھر نہ چلو۔ کیونکہ اس طرح مخالفین کو اعتراض کرنے کا موقعہ ملے گا۔ مگر یاد رکھو کہ نیکی پر چلنا صرف اس ڈر سے ضروری نہ سمجھو کہ لوگ کیا کہیں گے، بلکہ اس ڈر سے نیکی اختیار کرو کہ اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے اور وہ ناراض نہ ہوجائے۔ آیت 152 میں ذکر و شکر کی فضیلت کو بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ ” پس یاد کرو مجھے میں یاد کروں گا تم کو اور میرا شکر کرو اور کفر مت کرو “ جناب سلطان بشیر محمود صاحب نے اپنی کتاب ” قیامت اور حیات بعدالموت (ص 510) “ میں بڑی خوبصورت بات کی ہے۔ فرماتے ہیں۔ ” یہی وہ براہ راست طریقہ ہے جس پر عمل کرکے آدمی اپنے خالق سے اپنے تعلق کو بڑھا سکتا ہے اور اپنے مقام کو پاسکتا ہے۔ اگر اس ذکر کے ساتھ فکر بھی ہو تو کائنات کی تسخیر کی راہیں خود بخود اس پر کھلنے لگ جاتی ہیں اور اپنے مقام کی پہچان ہوجاتی ہے “۔ ذراسوچا جائے کہ اللہ تعالیٰ کو ہماری اس بات کا کوئی فائدہ نہیں کہ ہم ہر دم اس کو یاد کریں، بلکہ اس میں فائدہ انسان کا اپنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو تو ہر وقت اپنے بندے کی بھلائی درکار ہے تو اپنے رب کو یاد رکھنے میں بھی خود بندے کی ہی بھلائی ہے۔ وہ اس طرح کہ جب انسان اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے، سوتے جاگتے غرض ہر وقت اللہ کو یاد رکھے گا تو انسان کی توجہ شیطان اور شیطانی کاموں سے ہٹ کر صرف اور صرف رب کریم کی طرف لگی رہے گی تو اسے اندر ہی اندر دل کی صفائی اور روح کی بلندی حاصل ہوتی چلی جائے گی اور یوں انسان میں وہ تمام سماجی و دینی، اخلاقی خوبیاں اور شکر و رضا کی تمام صفات پیدا ہوجائیں گی جو اس کو عام انسان سے خاص طور پر کافر و مشرک سے ممتاز کردیں گی اور یوں اللہ کی نعمتیں، برکتیں اور فضل و کرم کی بارشیں اس پر ہوتی رہیں گی۔ ایک شکر گزار انسان اللہ کا پسندیدہ انسان ہوتا ہے اس لئے اس کی نعمتوں میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ حضرت ذوالنون مصری نے فرمایا کہ ” جو شخص حقیقی طور پر اللہ کو یاد کرتا ہے وہ اس کے مقابلہ میں ساری چیزوں کو بھول جاتا ہے تو اس کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ خود اس کے لئے ساری چیزوں کی حفاظت کرتے ہیں اور تمام چیزوں کا عوض اس کو عطا کردیتے ہیں “۔ اسی طرح حضرت معاذ ؓ نے فرمایا کہ ” انسان کا کوئی عمل اس کو اللہ کے عذاب سے نجات دلانے میں ذکر اللہ کے برابر نہیں۔ “ غرض اللہ کا ذکر نجات حاصل کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔
Top