Mafhoom-ul-Quran - Al-Israa : 90
وَ قَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ یَنْۢبُوْعًاۙ
وَقَالُوْا : اور وہ بولے لَنْ نُّؤْمِنَ : ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے لَكَ : تجھ پر حَتّٰى : یہانتک کہ تَفْجُرَ : تو رواں کردے لَنَا : ہمارے لیے مِنَ الْاَرْضِ : زمین سے يَنْۢبُوْعًا : کوئی چشمہ
اور کہنے لگے کہ ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ آپ ہمارے لیے زمین سے چشمہ جاری نہ کردیں۔
کفار کی حجت بازی اور ان کی سزا تشریح : کفار نے جو معجزات کا مطالبہ کیا تو وہ ایسے ہی تھا، جیسے بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کیا تھا وہ 9 معجزات دیکھنے کے بعد بھی ایمان نہ لائے۔ تو جو لوگ ایمان لانے والے ہوتے ہیں وہ تو ویسے ہی سچائی کو دیکھ کر ایمان لے آتے ہیں ان کو معجزے دیکھنے کی ہرگز ضرورت نہیں ہوتی۔ پھر حجت یہ کہ انسان نبی نہیں ہوسکتا۔ یہ مضمون سورة الانعام میں بڑی تفصیل سے گزر چکا ہے۔ یہاں ان لوگوں کو خبردار کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا کہ کہہ دو ” میرے اور تمہارے درمیان اللہ ہی گواہ کافی ہے کیونکہ وہ ہی اپنے بندوں کو دیکھنے والا اور خبر رکھنے والا ہے۔ “ پھر کفار ومشرکین کو بڑی سخت سزا کا پیغام دیا گیا۔ اور نبی کریم ﷺ کا درجہ بتایا گیا کہ وہ انتہائی محترم و مکرم رسول ہیں اور انہیں ڈرانے والا گناہ اور عذاب سے اور نیکو کار لوگوں کو جنت اور انعامات کی خوشخبری دینے والا بنا کر بھیجا گیا اور پھر قرآن کی عظمت و اعجاز کا بیان ہے اور اس کو سن کر رونے والے اور سجدہ میں گر جانے والے ان متقی مسلمانوں کا ذکر ہے جو قرآن کی تلاوت سن کر روتے تھے اور یوں ان کے ایمان میں اور بھی پختگی اور روح میں پاکیزگی اور بلندی پیدا ہوجاتی اور وہ اللہ کے اور بھی قریب ہوجاتے۔ اس کے بعد اس بات کی وضاحت کی گئی کہ اللہ رحمن و رحیم سے مراد ایک ہی اللہ ہے یہ اس کے دو صفاتی نام ہیں، کیونکہ عرب کے لوگ اس وقت اللہ کے صفاتی ناموں سے واقف نہ تھے جب انہوں نے نبی کریم ﷺ کے منہ سے اللہ کے لیے رحمن و رحیم کے الفاظ سنے تو وہ کہنے لگے کہ ہمیں تو کہتا ہے اللہ ایک ہے اور خود اللہ کے دونام لیتا ہے تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی تھی۔ اللہ عرش پر موجود ہے اور وہ ہر چیز کو دیکھتا اور ہر قول کو سنتا ہے، وہ بڑی قدرت اور رحمت والا ہے اور اس کے خزانے سب کے لیے برابر کھلے ہوئے ہیں وہ سب کو بڑی فراخی سے روزی رزق اور تمام آسائشیں دیتا ہے، پھر نماز پڑھنے کے آداب بتائے کہ نہ تو بالکل آہستہ پڑھو اور نہ ہی بہت بلند آواز میں بلکہ درمیانی آواز میں نماز پڑھا کرو اور آخر میں اس رب العلمین وحدہٗ لا شریک، مالک الملک، رحمن و رحیم کی وحدانیت کی شہادت دی گئی ہے اور حکم دیا گیا ہے کہ ” اس کو بڑا جان کر اس کی بڑائی بیان کرتے رہو۔ “ (بنی اسرائیل :111) تو ہی مالک، تو ہی خالق، تو ہی آقا، تو ہی مولا۔
Top