Mafhoom-ul-Quran - Al-Israa : 85
وَ یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ١ؕ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا
وَيَسْئَلُوْنَكَ : اور آپ سے پوچھتے ہیں عَنِ : سے۔ْمتعلق الرُّوْحِ : روح قُلِ : کہ دیں الرُّوْحُ : روح مِنْ اَمْرِ : حکم سے رَبِّيْ : میرا رب وَمَآ اُوْتِيْتُمْ : اور تمہیں نہیں دیا گیا مِّنَ الْعِلْمِ : علم سے اِلَّا : مگر قَلِيْلًا : تھوڑا سا
اور آپ سے وہ روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں فرمادیں کہ ” وہ میرے رب کی ایک شان (حکم) ہے اور تم لوگوں کو بہت ہی کم علم دیا گیا ہے
روح کی حقیقت تشریح : اس آیت کا شان نزول اس طرح ہے کہ یہودیوں نے کہا کہ ہم محمد ﷺ سے پوچھیں کہ روح کیا چیز ہے ؟ اگر تو انہوں نے بتا دیا تو ٹھیک ورنہ پھر یہ سچے نہیں۔ جب انہوں نے آپ سے پوچھا کہ روح کیا چیز ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان کو کہہ دو کہ ” روح اللہ کا حکم ہے جو انسان کو طاقت عطا کرتا ہے کہ وہ حرکت کرسکے بس تم اتنا ہی سمجھ لو۔ “ اس وقت کے لوگوں کے لیے یہی علم کافی تھا مگر اب تو روح کی اصلیت معلوم کرنے کے لیے سائنس دان پاگل ہو رہے ہیں۔ اصل میں جسم اور روح مل کر انسان مکمل ہوتا ہے۔ جسم کے اجزا تو معلوم کرلیے گئے مگر روح ڈالنا انسان کے نہ تو بس میں ہے اور نہ عقل میں آرہا ہے۔ انسانی جسم ایک فرض شناس مشین ہے جو کہ ایک سو چھبیس عناصر سے بنتی ہے یہ مشین انتہائی پچیدہ اور لاجواب مشین ہے موٹی موٹی خاصیتیں، مثلاً یاد داشت ایک ایسی لائبریری ہے جہاں بچپن کا ہر لمحہ محفوظ رہتا ہے۔ خوشی اور غم کے جذبات میں بہنے والے آنسو مختلف ہوتے ہیں اسی طرح آنکھ، کان، ناک، معدہ، دل ہر حصہ اپنے طور پر ایک مکمل شعبہ ہے جو بڑی مستعدی سے کام کرتا ہے۔ اور کوئی شور شرابا نہیں ہوتا۔ لیکن اس مشین کا کنٹرول یعنی اصل انسان کیا ہے ؟ وہ ہے روح۔ اور اس کی تعریف تو سمجھ میں آچکی ہے کہ یہ مشین انسانی حرکت کا موجب ہے اور یہ انسان کو ہمیشہ بلندیوں کی طرف متوجہ کرتی رہتی ہے۔ روح جس قدر پاکیزہ ہوگی انسان اسی قدر بہترین صفات کا مالک ہوگا۔ اس کی سوچ تعمیری ہوگی، فسق و فجور اور دنگا فساد سے دور رہے گا، ہمیشہ پرامن رہے گا اور دوسروں کو بھی آرام و راحت پہنچانے کی کوشش کرے گا اور یوں گوشت پوست کا پتلا، یعنی انسان اللہ کا مقبول بندہ بن کر اچھی زندگی گزارے گا، لیکن اگر کسی کی روح ہی بد ہو، کیونکہ نیک روح فرشتوں کی دوست اور بد روح شیطان کی دوست ہوتی ہے۔ ظاہر ہے شیطان کی دوست روح انسان کو چین سے نہیں رہنے دیتی اور یوں ایک بےچین انسان پورے معاشرے کو بےچین کرتا رہتا ہے۔ خود بھی جہنم نما زندگی گزار کر جہنم کا ایندھن بن جاتا ہے اور دوسروں کو بھی مشکلات میں ڈال کر حیران و پریشان کرتا رہتا ہے، مگر روح کی اجزائے ترکیبی سوائے اس کے اور کچھ معلوم نہیں ہوسکی کہ یہ اللہ کا حکم ہے اور بس۔ جب ماں کے پیٹ میں ایک جرثومہ داخل ہوتا ہے تو وہ زندہ ہوتا ہے اللہ کے حکم سے وہ اپنی جگہ پر پہنچ کر نشو ونما پانے لگتا ہے اور پھر اللہ کے حکم اور مرضی سے دنیا میں آجاتا ہے اور زندگی گزارنا شروع کردیتا ہے، پھر اچھی یا بری جیسی بھی اس کو راہیں ملتی ہیں گزارتا رہتا ہے اور جب بھی اللہ کا حکم ہوتا ہے روح اللہ کی طرف چل پڑتی ہے اور جسم بےحس و حرکت اور بیکار ہوجاتا ہے اور انسان مردہ ہوجاتا ہے۔ بڑے بڑے سائنسدان ربوٹ تو بنا رہے ہیں مگر وہ چلتے بجلی کی طاقت سے ہیں وہ ان میں روح ڈالنے سے بالکل قاصر ہیں۔ یہ تو صرف اللہ کا حکم ہے اللہ کی شان ہے اور اسی کی قدرت میں ہے انسان تو اس کو سمجھنے سے بھی معذور ہے۔ روح کا بنالینا یہ تو ممکن ہی نہیں یہ پہلے بھی غائب کا علم تھا اور آج بھی غائب کا علم ہے۔ انسان نے خلا میں کئی تحقیقات کرلیں، چاند پر پہنچنا تو پرانی بات ہوگئی اب تو اس سے بہت آگے کی باتیں ہو رہی ہیں مگر روح کے راز سے انسان پردہ نہیں اٹھا سکا۔ اور یقیناً کبھی بھی اٹھا نہ سکے گا یہ بھی اللہ کی مرضی اور حکم پر ہی منحصر ہے۔ اس میں انسان بےبس ہے۔
Top