Mafhoom-ul-Quran - Al-Israa : 66
رَبُّكُمُ الَّذِیْ یُزْجِیْ لَكُمُ الْفُلْكَ فِی الْبَحْرِ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ بِكُمْ رَحِیْمًا
رَبُّكُمُ : تمہارا رب الَّذِيْ : وہ جو کہ يُزْجِيْ : چلاتا ہے لَكُمُ : تمہارے لیے الْفُلْكَ : کشتی فِي الْبَحْرِ : دریا میں لِتَبْتَغُوْا : تاکہ تم تلاش کرو مِنْ : سے فَضْلِهٖ : اس کا فضل اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : ہے بِكُمْ : تم پر رَحِيْمًا : نہایت مہربان
تمہارا رب وہ ہے جو تمہارے لیے دریا میں کشتیاں چلاتا ہے تاکہ تم اس کے فضل سے روزی تلاش کرو بیشک وہ تم پر مہربان ہے۔
اللہ کی رحمتیں برکتیں اور انسان کی ناشکری تشریح : یہاں پھر ان تمام احسانات کا ذکر کیا گیا ہے جو انسانوں کی سہولت آرام و آسائش کے لیے اللہ نے انسان کو دے رکھے ہیں مثلاً اتنے بڑے بڑے پانی سے بھرے ہوئے موجیں مارتے دریا اور زبردست سمندر سب کو انسان کے لیے اس طرح مسخر (تابع) کردیا کہ انسان اپنی عقل سے کام لے کر جو اللہ نے اس کو دی ہے بڑی بڑی کشتیاں اور جہاز بنا کر ان کے ذریعے سفر کرتا ہے، تجارت کرتا ہے، مگر پھر بھی اللہ کا شکر ادا نہیں کرتا مگر کیونکہ فطرتاً انسان اللہ کو ہی رب مانتا ہے، اس لیے جب طوفان اور مصیبت میں گھر جاتا ہے تو پھر مدد کے لیے بےاختیار اللہ ہی کو پکارتا ہے اس وقت وہ اپنے کسی ایسے اللہ کو نہیں پکارتا جسے اس نے اللہ کا شریک بنارکھا ہوتا ہے۔ مگر انسان اس قدر ناقص عقل کا مالک ہے کہ جب طوفان سے بچ جاتا ہے تو پھر وہی پرانی گمراہی اور شرک کرنے لگتا ہے۔ حالانکہ مصیبت خشکی پر بھی آسکتی ہے سمندر میں سفر دوبارہ بھی ہوتا ہے مگر انسان اتنا ناشکرا ہے کہ مصیبت ٹلنے پر پھر وہی کفر و شرک یہ جو اللہ رحمت سے اپنے بندوں کو نوازتا رہتا ہے تو یہ صرف اس لیے کہ انسان اللہ کی بہترین تخلیق ہے۔ دنیا کی تمام مخلوقات، نباتات، حیوانات اور جمادات انسان کے سامنے کم تر ہیں۔ انسان کو چاہیے کہ اللہ کی دی ہوئی ان تمام نعمتوں سے بھر پور فائدہ اٹھا کر اس مرتبہ کو بلند سے بلند ترین کر کے واقعی ایک بہترین مخلوق ہونے کا ثبوت دے۔ یہی انسانیت کی کامیابی، فخر اور خوش نصیبی ہے۔ انسان کے لیے اللہ نے تمام دنیا اور اس کی ہر چیز بنائی کہ وہ آرام سے رہے اور دنیا میں انسان کو اس قدر عزت عطا کی کہ اس کو اپنا خلیفہ (نائب) بنا کر بھیجا ہے، تو کیا انسان کا فرض نہیں کہ اپنے اس مرتبہ کا خیال کر کے انتہائی خوبصورتی سے دنیا پر حکومت کرے اور ہر وقت اس مہربان قادر مطلق کا احسان مند رہے اور ہر وقت اس کا شکر ادا کرے اور ہر صورت اسی کی طرف اپنا رخ موڑے رکھے اور اس کی دی ہوئی ہدایات پر خلوص نیت سے عمل کر کے زندگی گزارے۔ یعنی اگر وہ والدین ہیں تو بہترین والدین، اگر اولاد ہے تو بہترین اولاد، اگر استاد ہے، ڈاکٹر ہے، وکیل ہے، عالم ہے، لیڈر ہے یا سربراہ مملکت ہے غرض جس عہدہ یا جس مقام پر بھی وہ زندگی گزار رہا ہو اس مقام کے تمام فرائض انتہائی ایمانداری، خلوص، محبت اور محنت سے اللہ کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق ادا کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ انسان کی نجات اس جہان میں اور آخرت میں بخیر و خوبی نہ ہو۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہم مسلمان کے گھر پیدا ہوئے اور ہمیں دنیا کی بہترین کتاب قرآن پاک عطا ہوئی۔ ” اے ہمارے رب ہمارے دلوں میں صبر ڈال دے اور ہمارے پائوں جمائے رکھ اور کفار کی قوم پر ہمیں غلبہ دیجئے۔ “ (البقرہ آیت :250) شیطان کے لشکر ہر وقت ہمارے سروں پر سوار رہتے ہیں ان سے ہوشیار رہنا چاہیے، اور اللہ سے مدد مانگتے رہنا چاہیے۔
Top