Mafhoom-ul-Quran - Al-Israa : 55
وَ رَبُّكَ اَعْلَمُ بِمَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ لَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِیّٖنَ عَلٰى بَعْضٍ وَّ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا
وَرَبُّكَ : اور تمہارا رب اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِمَنْ : جو کوئی فِي : میں السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضِ : اور زمین وَ : اور لَقَدْ فَضَّلْنَا : تحقیق ہم نے فضیلت دی بَعْضَ : بعض النَّبِيّٖنَ : (جمع) نبی) عَلٰي بَعْضٍ : بعض پر وَّاٰتَيْنَا : اور ہم نے دی دَاوٗدَ : داو ود زَبُوْرًا : زبور
اور جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں آپ کا رب ان سے خوب واقف ہے اور ہم نے بعض پیغمبروں کو بعض پر فضیلت بخشی اور داود کو زبور عطا کی۔
انبیاء کی فضیلت کے پہلو، دعا اور اعمال کا وسیلہ، بستیوں کی ہلاکت تشریح : یہاں اللہ کے علیم وخبیر ہونے کا ذکر ہے اور پھر حضرت داود (علیہ السلام) کا ذکر خاص طور سے کیا گیا کیونکہ ان کو ایسی بادشاہت ملی تھی کہ جیسی کسی اور کو نہیں ملی اور ان پر نازل ہونے والی کتاب زبور کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ پھر حکم ہوا کہ شرک کو چھوڑ دو کیونکہ یہ ظلم ہے اور پھر جب بھی چاہو تو ان معبودوں کو اپنی مصیبت ٹالنے کے لیے پکار کر دیکھ لو وہ کچھ نہیں کرسکتے بلکہ وہ تو خود اللہ کے مختاج ہیں۔ اور پھر قیامت سے پہلے ایسی تمام بستیاں تباہ کردی جائیں گی جو کفر و شرک اور بداعمالیوں کا مقام ہوں گی۔ یہ سب کچھ ہو کر رہے گا کیونکہ عالم کا تمام انتظام لوح محفوظ (کمپیوٹر) میں محفوظ کردیا جا چکا ہے۔ عذاب سے بچنے کا ذریعہ صرف قرآن پر عمل ہے۔ خشوع و خضوع سے عبادت کرنا۔ عبادت کی بنیاد تین باتوں پر ہے ایک رب کی وفاداری دوسرے رب کی اطاعت اور تیسرے مالک کا ادب اور اس کی تعظیم۔ جب ہم اس طریقہ پر اپنی زندگی گزارتے ہیں تو پھر ہماری زندگی کا ہر ہر عمل یہاں تک کہ سونا جاگنا، چلنا، پھرنا اور زندگی کا ہر کام عبادت میں شمار ہوتا ہے اور ہم مفت میں دہرا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ دنیا میں کامیاب اور آخرت میں بھی کامیاب۔ یہی اسلام ہے اور یہی مسلم کی شان ہے جو اس کو کفار سے افضل کرتی ہے۔ اس خالص عبادت کے بعد ہمیں دنیا میں آسمانوں سے لے کر زمین تک کوئی چیز کوئی مخلوق۔ ایسی نظر نہیں آتی جو اللہ کے مقابلہ میں عبادت کے لائق نظر آئے اور ایسے ہی سچے مسلمان اللہ کے مقبول ہوتے ہیں، ورنہ اللہ رزق تو کفار و مشرکین کو بھی دیتا ہے مگر ان کے بداعمالی اور گمراہیوں کی وجہ سے ان سے ناراض ہوتا ہے اور پھر جب وہ حد سے گزر جاتے ہیں تو پھر ان پر عذاب الٰہی ٹوٹ پڑتا ہے اور پوری پوری بستیاں پلک جھپکنے میں نیست و نابود ہوجاتی ہیں۔ باقی رہا قیامت کا مسئلہ وہ تو ایک علیحدہ نظام کے تحت آئے گی۔ کہ جب اللہ نے اس جہان کو ختم کرنے کا وقت مقرر کر رکھا ہے تو پھر اس کے نظام تقدیر کے مطابق یہ تمام جہان ختم کردیا جائے گا ایک نئے نظام کو بنا دیا جائے گا۔ یہی اللہ کی حکمت ہے۔
Top