Mafhoom-ul-Quran - Al-Israa : 49
وَ قَالُوْۤا ءَاِذَا كُنَّا عِظَامًا وَّ رُفَاتًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ خَلْقًا جَدِیْدًا
وَقَالُوْٓا : اور وہ کہتے ہیں ءَاِذَا : کیا۔ جب كُنَّا : ہم ہوگئے عِظَامًا : ہڈیاں وَّرُفَاتًا : اور ریزہ ریزہ ءَاِنَّا : کیا ہم یقینا لَمَبْعُوْثُوْنَ : پھر جی اٹھیں گے خَلْقًا : پیدائش جَدِيْدًا : نئی
اور کہتے ہیں کہ جب ہم مر کو بوسیدہ ہڈیاں اور چور چور ہوجائیں گے تو کیا از سر نو پیدا ہو کر اٹھیں گے۔
کفار کا انکار قیامت اور اللہ کا جواب تشریح : کائنات کی ہر چیز ہمارے سامنے فنا ہو رہی ہے۔ انسان مر رہے ہیں اور انسان پیدا ہو رہے ہیں۔ کیا یہ سب کچھ کافی نہیں اس بات پر یقین کرنے کے لیے کہ ہم سب ضرور مرجائیں گے اور دوبارہ اللہ کی اسی قدرت سے زندہ کیے جائیں گے جس قدرت سے ہم پیدا کیے جاتے ہیں۔ کیا ہمارے پیدا ہونے کا عمل حیرت انگیز نہیں ؟ زمین سے پیدا ہونے والی تمام خوراکوں کو کس طریقہ سے تمہارے والدین کے جسموں میں جمع کردیا تاکہ تمہاری پیدائش کا سامان کیا جائے، پھر ماں کے پیٹ میں کس بہترین اور عجیب و غریب طریقہ سے تمہیں ایک مکمل انسان بنا کر ایک انتہائی پیچیدہ عمل سے گزار کر دنیا میں بھیج دیا گیا۔ اگر غور کریں تو یہ ثبوت دوبارہ زندہ کیے جانے کے لیے بڑا ثبوت ہے۔ جس طرح پہلے پیدا کیا گیا اسی طرح دوبارہ ضرور پیدا کیا جائے گا۔ اور پھر انسان بہترین مخلوق ہے اس دنیا کی تو کیا اس کو یونہی بےکار پیدا کردیا گیا ہے ؟ ہرگز نہیں اس کی پیدائش کا مقصد ہے۔ یہ کہ دیکھا جائے انسان کس حد تک حق و صداقت اور رضائے الٰہی حاصل کرنے کے لیے اپنی عارضی اور فانی خواہشات کو قربان کرتا ہے۔ اور کس حد تک اخلاق و کردار میں بلند ترین درجات حاصل کرتا ہے۔ یہ عقیدہ آخرت ہی ہے جو انسان کو انسانیت کی حدود میں مقید کرتا ہے۔ ورنہ انسانی فطرت تو یہ ہے کہ دوسرے انسان کو وہاں مارے جہاں سے اس کو پانی بھی نہ ملے (محاورہ ہے) انسان میں حسد، بغض، رقابت اور شرارت کے جذبات بہت زیادہ پائے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج جو فساد مسلمانوں میں دکھائی دیتا ہے وہ اسی عقیدہ آخرت سے ناواقفیت یا عقیدہ کی کمزوری کا سبب ہے۔ جب ہم قرآن پاک میں بار بار یہ پڑھتے ہیں کہ ” کیا تم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ہم نے تمہیں یونہی بیکار پیدا کیا اور تم ہماری طرف لوٹ کر نہیں آئو گے ؟ (سورۃ المومنون آیت 115 ) ہرگز نہیں۔ موت انفرادی ہو یا اجتماعی ضرور آئے گی اور موت زندگی کا انجام نہیں بلکہ یہ ایک دوسری زندگی کا آغاز ہے۔ جو مرتے ہی شروع ہوجاتی ہے۔ اس عالم کو عالم برزخ کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے بعد قیامت آئے گی اور یوم الحساب اسی دن کو کہتے ہیں۔ وہ دن بڑا سخت ہوگا۔ ظالم اور مظلوم علیحدہ علیحدہ کر کے سرکش لوگوں کی گردنیں توڑی جائیں گی، سچے لوگوں کو انعام اور جھوٹوں کو سزا ملے گی۔ وہ بہترین انصاف ہوگا جس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔ یہاں کئی بےگناہ سزا پاتے ہیں اور کئی گنہگار عیش کرتے ہیں۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ” کیا ہم ایمان لانے والے اور اچھے کام کرنے والوں کو ان جیسا کردیں۔ جو زمین میں بگاڑ پھیلاتے ہیں۔ یا ہم پرہیزگاروں کو نافرمان اور شریر لوگوں کے برابر کردیں گے۔ ؟ (سورۃ ص آیت 28 ) کون ہے جو یہ سب کچھ جان کر بھی کفر و شرک، جھوٹ، چوری اور فساد یعنی عبادات اور اخلاقیات سے سستی کرے گا ؟ میرے خیال میں عقیدہ آخرت کے بغیر اچھا، بہترین اور پاک صاف معاشرہ وجود میں نہیں آسکتا۔ عقیدہ آخرت کی حکمتیں اور فائدے اتنے ہیں کہ اندازہ ہی نہیں کیا جاسکتا اس کو یوں سمجھ سکتے ہیں کہ ایک طالب علم امتحان کی تیاری کو سامنے رکھتا ہے تو بہتر طریقہ سے پڑھائی کرتا ہے کہ کہیں فیل نہ ہوجاؤں اور پھر بہترین کامیابی کے لیے بہترین نتائج کو سامنے رکھتا ہے۔ اسی طرح جس انسان کو جس قدر عقیدہ آخرت پر یقین ہوگا وہ اتنا ہی زیادہ پرہیزگار، نیک، صالح اور کامیاب انسان ہوگا، یعنی انسان اور قوموں کو ترقی کی راہ پر چلانے کے لیے عقیدہ آخرت پر یقین رکھنا ایک انمول اور لاجواب نسخہ ہے۔ ہمارے سامنے اسلام کے ابتدائی دور کی فتوحات، ترقیاں، کامیابیاں اور اشاعت و تبلیغ کا پورا نقشہ موجود ہے جس کی بنیاد یہی عقیدہ آخرت ہی ہے۔ اسی کی وجہ سے انسان روحانی طور پر بلند ہوتا چلا جاتا ہے اور دنیا کی زندگی انتہائی شاندار مطمئن اور پر آسائش گزار سکتا ہے۔ اور آخرت اس سے بھی بڑھ کر اچھی۔ اس میں کوئی شک و شبہ کی بات نہیں کہ مسلمان نے جو کمزوری اور ذلت و خواری اختیار کر رکھی ہے وہ اسی عقیدہ آخرت پر کمزوری کی وجہ سے ہے۔ اس وقت قرآن پاک کی تعلیمات کو انتہائی محتاط اور پر اثر طریقہ سے بہت زیادہ عام کرنے کی بےحد ضرورت ہے۔ کیونکہ یہی ہمارے بگاڑ کو سنوار سکتی ہیں۔ ہمارے بچے، ہمارے جوان اور بہت سے بزرگ بھی قرآنی تعلیمات سے بہت حد تک بالکل لا علم ہیں۔ صرف مرنے کو ہی یاد رکھ لیں تو بیشمار برائیوں سے بچ سکتے ہیں۔ ہمارے سامنے دن رات یہ ہوتا رہتا ہے کہ ڈاکو مارا گیا، سمگلر مارا گیا، بددیانت اپنی حرام حلال تمام مال و دولت چھوڑ کر مرگیا اور ایک ایسا شخص جو صرف دولت کمانے کے لیے اللہ رسول اور دین و مذہب کو بھی بھول گیا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر فوت ہوگیا۔ سکندر اعظم نے وصیت کی کہ جب میں مرجاؤں تو میرے دونوں ہاتھ کفن سے باہر رکھ دینا تاکہ لوگوں کو عبرت حاصل ہو کہ میں نے اتنی فتوحات کیں اور اب صرف خالی ہاتھ تن تنہا، اس دنیا سے رخصت ہو رہا ہوں۔ قارون نے کیا کمایا سب کچھ اس کے ساتھ ہی زمین میں دھنس گیا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنی زندگیوں کو ایک ایسے نظام کے مطابق بسر کرو جو بہترین ہو اور وہ ہے اللہ کا دیا ہوا نظام حیات۔ جس کو کھول کھول کر قرآن پاک میں بیان کیا گیا ہے اور پھر امیر ترین بننے کی ترکیب یہ ہے کہ قناعت کو اپنایا جائے۔ بندہ فقیر بازی کہتا ہے۔ ” قناعت و حرص دو متضاد چیزیں ہیں۔ قناعت عظیم سعادت و رحمت ہے اور حرص دنیا بہت بڑی شقاوت و آفت ہے۔ “ (از گلستان قناعت مصنف محمد موسیٰ روحانی بازی) تمام ظاہری و باطنی بیماریاں اور خرابیاں صرف اس عقیدہ آخرت کی کمزوری کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ محمد موسیٰ روحانی (رح) تعالیٰ لکھتے ہیں۔ ” بعض حکماء سے پوچھا گیا کہ غنا (امیری) کس چیز کا نام ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ تیری تمنا اور آرزو کے کم ہونے اور بقدرکفایت رزق پر تیرے راضی ہونے کا نام غناء ہے۔ “ (ازگلستان قناعت) یہ سب کچھ کہنے کا مطب یہ ہے کہ جو لوگ دنیا کو ہی سب کچھ سمجھ لیتے ہیں وہ سب سے زیادہ نقصان میں ہیں کیونکہ قرآن پاک میں صاف صاف بتا دیا گیا ہے۔ ” جس دن وہ تمہیں پکارے گا تو تم اس کی تعریف کے ساتھ جواب دو گے اور خیال کرو گے کہ تم دنیا میں بہت کم مدت رہے۔ “ (سورۃ بنی اسرائیل آیت : 52) واقعی دنیا کی زندگی بہت مختصر اور امتحان کا کمرہ ہے۔ آخرت کی زندگی ہمیشہ کی زندگی اور انعام و سزا کا یعنی نتیجہ کا کمرہ ہے۔ ہر وقت اچھے اور بہترین نتیجہ حاصل کرنے کی فکر کرو۔
Top