Mafhoom-ul-Quran - Al-Hijr : 51
وَ نَبِّئْهُمْ عَنْ ضَیْفِ اِبْرٰهِیْمَۘ
وَنَبِّئْهُمْ : اور انہیں خبر دو (سنا دو ) عَنْ : سے۔ کا ضَيْفِ : مہمان اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم
اور ان کو ابراہیم کے مہمانوں کا حال سنا دو ۔
سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کو بیٹے کی خوشخبری، قوم لوط کا ذکر بد، ثمودیوں پر عذاب تشریح : ان تمام آیات کا مقصد صرف یہ ہے کہ انسان کو اللہ کی عنایت کی گئی صفات کو اعتدال، راست بازی اور خلوص و ایمان کے ساتھ اپنی روز مرہ زندگی میں کام میں لانا چاہیے۔ کیونکہ انسان کی زندگی جانوروں جیسی نہیں بلکہ انسان کی زندگی کا عظیم مقصد ہے۔ اخلاقی فضائل کو ہم چار شعبوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ پہلا حکمت، دوسرا شجاعت، تیسرا عفت چوتھا عدالت۔ جو قومیں اللہ کی دی ہوئی ان تمام قوتوں کو صحیح اور مناسب طریقہ سے استعمال میں لاتی ہیں وہی کامیاب و کامران اور اللہ کے مزید انعامات اور رضا کی حق دار ہوتی ہیں۔ اس میں چاہے ایک فرد ہو یا پوری قوم ہو۔ یہی اصول سب پر لاگو ہوتا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے غور و فکر کر کے دین حنیف کو قبول کیا اور پھر اس کی اشاعت کی جب کہ وہ بھی ایک بت پرست باپ کے گھر اور بت پرست ماحول میں پیدا ہوئے تھے۔ غور و فکر، حکمت، شجاعت، عفت اور عدالت پر قائم رہتے ہوئے مقبول خدا ہوئے اور ان کو بڑھاپے میں نیک اولاد حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی پیدائش کی خوشخبری دی گئی۔ سورة ہود رکوع 7 میں آپ کے بارے میں تفصیلاً بیان کیا جا چکا ہے۔ جن فرشتوں نے آپ کو خوشخبری دی انھی نے حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم پر عذاب لانے کی خبر بھی سنائی۔ یہ قوم اخلاقی پستیوں میں ڈوب چکی تھی، یعنی مرد مردوں سے بےحیائی کا کام کرتے، جبکہ یہ بہت بڑا گناہ ہے۔ سخت ظالم، دھوکہ باز اور بد معاملہ تھے۔ شعیب (علیہ السلام) کی قوم اور لوط (علیہ السلام) کی قوم کی بستیوں کے کھنڈرات حجاز سے شام اور عراق سے مصر جاتے ہوئے راستے میں ہیں۔ ان کے بارے میں سورة ھود رکوع 7 سورة اعراف رکوع 10 میں بڑی تفصیل سے بیان کیا جا چکا ہے۔ قوم لوط کی نافرمانیوں اور اخلاقی پستیوں کی وجہ سے ان کو تباہ و برباد کردیا گیا اور اوپر سے سخت نوکیلے پتھروں کی بارش کی گئی۔ شعیب (علیہ السلام) کو اہل مدین کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا، مدین ان کا مرکزی شہر تھا۔ ایکہ یہ تبوک کا قدیم نام ہے فلسطین سے شام جاتے ہوئے راستے میں ہے۔ یہ قوم ثمود کا مرکزی شہر تھا۔ مدینہ سے شمال کی طرف حجر نامی بستی تھی جہاں قوم ثمود رہتی تھی۔ حضرت صالح (علیہ السلام) ان کے پاس رسول بنا کر بھیجے گئے۔ اپنی قوم کو راہ راست پر لانا بڑا مشکل کام ہے۔ یہ لوگ بھی گناہوں کی پستیوں میں گر کر عذاب کے مستحق ہوئے ان پر ہیبت ناک عذاب آیا خوف ناک چنگھاڑ اور شدید زلزلہ کی صورت میں ان کے زبردست محلات جو پہاڑوں کو کاٹ کر بنائے گئے تھے۔ کھنڈرات کی صورت میں فلسطین سے شام جاتے ہوئے راستے میں موجود ہیں۔ یہ سب کچھ عقلمندلوگوں کے لیے عبرت کا نمونہ ہیں۔ سورة اعراف میں تفصیلات ہو چکیں۔ یہ سب کچھ دوبارہ صرف اس لیے بیان کیا گیا ہے تاکہ انسان اپنی قدر و منزلت پہچان کر اپنی زندگی کو بہترین توازن میں رکھ کر شیطان سے اپنا بچائو کرتے ہوئے اللہ کی پناہ میں رہتے ہوئے بہترین، پرسکون، کامیاب اور شادمان زندگی گزار کر آخرت میں بھی اعمال نیک کا بہترین انعام حاصل کرسکے۔ وہ انعام ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہوگا جب کہ یہ زندگی تو ضرور ہی ختم ہوجانے والی ہے۔ حکمت، شجاعت، عفت اور عدالت۔ ان چار قوتوں کا مجموعہ بہترین انسان کہلاتا ہے کیونکہ جو بھی اپنی زندگی میں ان صلاحیتوں کو اجاگر رکھتا ہے وہی اعمال صالحہ اور اخلاق حسنہ کا مالک ہوسکتا ہے جسے فضائل اخلاق کہتے ہیں اور اسی کا نام سعادت ہے اور یہی عظیم انسان کی زندگی کا مقصد ہے۔ جو ان تمام اصولوں سے ہٹ گیا وہی مارا گیا دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ” آپ سے پہلے ہم نے مختلف بستی والوں میں سے جو پیغمبر بھیجے تھے وہ سب بھی انسان ہی تھے اور انہی کی طرف ہم وحی بھیجتے رہے ہیں، پھر کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ؟ ورنہ دیکھ لیتے ان قوموں کا کیسا انجام ہوا جو ان سے پہلے گزر چکی ہیں، بیشک آخرت کا گھر ان لوگوں کے لیے اور زیادہ بہتر ہے جنہوں نے تقویٰ کی روش اختیار کی کیا اب بھی تم لوگ نہ سمجھو گے۔ “ ( سورة یوسف آیت :109 ۔ ) حدیث میں آتا ہے ” ایمان کی انتہا پرہیزگاری ہے۔ “ (مسند احمد)
Top