Mafhoom-ul-Quran - Al-Hijr : 45
اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍؕ
اِنَّ : بیشک الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگار فِيْ : میں جَنّٰتٍ : باغات وَّعُيُوْنٍ : اور چشمے
جو متقی ہیں وہ باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔
نیکوں کے لیے خوشخبری اور بروں کے لیے ڈراوا تشریح : ان آیات میں نیک، صالح اور متقی لوگوں کے لیے انعامات کا بیان ہے۔ متقی کی تعریف پیچھے گزر چکی ہے۔ مسلم کا مطلب ہے فرمانبردار، یعنی اسلام کے ہر حکم کی تعمیل دل و جان سے بخوشی کرنا اور یہی عبادت ہے چاہے اس حکم کا تعلق اللہ سے ہو یا بندوں سے ہو۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ مکمل اسلامی زندگی گزارنے والے آدمی کا ہر کام عبادت ہے۔ کیونکہ وہ جو بھی کرتا ہے چاہے دنیاوی کام ہوں یا کہ مذہبی کام ہوں۔ مثلاً خریدو فروخت، اٹھنا، بیٹھنا، کھانا پینا، لکھنا پڑھنا، اور لوگوں سے ملنا جلنا سب کچھ عبادت میں شمار ہوتا ہے۔ کتنی مزے کی بات ہے ! عبادات، یعنی نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج یہ بھی عبادت میں صرف اس وقت ہی شامل ہوسکتی ہیں اور قابل قبول ہوسکتی ہیں جبکہ نیت صاف اور خالص ہو۔ ورنہ تو کوئی فائدہ نہیں۔ نیت کے خلوص سے سونا بھی عبادت میں شمار ہوجاتا ہے۔ حکیم ابو نصر محمد بن فارابی انسانوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہتا ہے : ” پاکیزہ اور فطری زندگی یہ ہے کہ انسان تفکر اور تدبر سے کام لے وہ جاہلی تمدن (جہالت) کی زندگی کو ترک کر کے سعادت کی طرف لوٹ آئے صحیح تفکر اور تدبر (ٹھیک سوچ وبچار) پاکیزہ خیالات اعمال صالحہ (نیک کام) حسن اخلاق (خدمت خلقی) انسان کے دل و دماغ کو روشن کردیتے ہیں۔ اللہ کی عظمت (بڑائی) کا اظہار۔ نماز، روزہ، تسبیح و تقدیس اور اعمال صالحہ (نیک کام) اس کی زندگی کو پاکیزہ بنا دیتے ہیں۔ خدائے بزرگ و برتر اس بندے سے خوش ہوتا ہے اور موت کے بعد وہ عظیم الشان صلہ (بدلہ) کا مستحق ہوتا ہے۔ “ از مسلمان سائنس دان اور ان کی خدمات مصنف ابراہیم عمادی ندوی جنت کا جو تصور اوپر آیات میں بیان کیا گیا ہے وہ بہترین زندگی کا تصور ہے۔ اور اس کا مالک ہونا آسان کام نہیں اللہ کا ڈر، خوف اور محبت ہی ہمیں جنت کا وارث بنا سکتی ہے۔ بیشک اللہ جل شانہٗ غفوررحیم ہے (معاف کرنے والا رحم کرنے والا) مگر نافرمان کو سزا بھی بڑی سخت دیتا ہے۔ نبی اکرم ﷺ کو رب العلمین نے پیغمبر آخر الزمان بنا کر بھیجا تو آپ کو حکم دیا جا رہا ہے کہ آپ لوگوں کو گناہ اور ثواب کا، رحمت اور عذاب کا فرق سمجھانے کے لیے انعام کے حق دار حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ اور غضب کے حق دار قوم لوط اور ثمود کا قصہ سنا دیجئے۔ تاکہ لوگ عبرت حاصل کریں نیکی اختیار کریں اور گناہوں سے بچیں۔ اگلی آیات میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اور قوم لوط، ثمود کا ذکر مختصر بیان کیا جا رہا ہے۔ کیونکہ تفصیلاً تو پہلے گزرچکا ہے۔
Top