Mafhoom-ul-Quran - Al-Hijr : 23
وَ اِنَّا لَنَحْنُ نُحْیٖ وَ نُمِیْتُ وَ نَحْنُ الْوٰرِثُوْنَ
وَاِنَّا : اور بیشک ہم لَنَحْنُ : البتہ ہم نُحْيٖ : زندگی دیتے ہیں وَنُمِيْتُ : اور ہم مارتے ہیں وَنَحْنُ : اور ہم الْوٰرِثُوْنَ : وارث (جمع)
اور ہم ہی حیات بخشتے اور ہم ہی موت دیتے ہیں اور ہم سب کے وارث ہیں۔
موت وحیات کا مالک اور مرنے کے بعد زندہ کرنیوالا تشریح : جیسا کہ پچھلی آیات میں اللہ تعالیٰ کی بہترین تخلیقات، انتظامات اور قادرمطلق ہونے کا بیان مثالوں سے واضح کیا گیا ہے اسی طرح ان آیات میں اللہ کے حکیم (حکمت و دانائی والا) اور علیم (جاننے والا) ہونے کا اعلان کیا گیا ہے یہ بہت بڑے راز ہیں جن پر انسان نہ تو قابو پاسکتا ہے اور نہ ہی ان کا کوئی علاج ان کے پاس موجود ہے۔ جیسا کہ موت وحیات انسان کے بس میں نہیں۔ انسان نے انسانی جسم کی بناوٹ کے تمام اجزا معلوم کرلیے ہیں، جوڑ کر بنانے کا دعویٰ بھی کرلیا ہے مگر روح کیونکہ اللہ کا حکم ہے اس لیے انسان اپنے بنائے ہوئے انسان میں جان نہیں ڈال سکتا۔ انسان کتنی بھی کوشش کرلے کتنی ہی محنت کرلے روح نہیں ڈال سکتا کیونکہ زندگی دینا اللہ کے اختیار میں ہے۔ رہا موت کا سلسلہ تو موت بھی رب الاعلیٰ نے اپنے ہی اختیار میں رکھی ہوئی ہے۔ کوئی شخص کتنا ہی پریشان ہو بیماری کی وجہ سے دکھی اور تکلیف کی وجہ سے غمزدہ مگر وہ اپنی مرضی سے مر نہیں سکتا۔ مرنے کا وقت، جگہ اور وجہ اللہ کے پاس لکھی ہوئی موجود ہے موت نہ وقت سے پہلے آئے گی نہ وقت سے بعد۔ جو لوگ اللہ کے اس حکم سے ٹکراتے ہیں، یعنی خود کشی کرتے ہیں تو ان کو اس کا عذاب ضرور دیا جائے گا کیونکہ یہ حرام موت میں شامل ہے اور وہ موت جو بظاہر وہ خود گلے لگاتا ہے دراصل وہ بھی رب العلمین کے پاس لکھی جا چکی ہوتی ہے۔ خود کشی کرنے والا خواہ مخواہ عذاب اور گناہ اپنے اعمال میں درج کر والیتا ہے۔ یہ بڑا سخت گناہ ہے حدیث میں آتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے اپنے آپ کو پہاڑ سے گرا کر خود کشی کی وہ جہنم کی آگ میں ہوگا اور وہاں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گرتا رہے گا، اور جس نے زہر پی کر خود کشی کی تو اس کا زہر اس کے ہاتھ میں ہوگا اور وہ جہنم کی آگ میں اسے ہمیشہ ہمیشہ پیتا رہے گا، اور جس نے اپنے آپ کو کسی اوزار سے قتل کیا، تو اس کا وہ اوزار اس کے ہاتھ میں ہوگا، اور وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ اسے اپنے پیٹ میں گھونپتا رہے گا۔ (صحیح بخاری) زندگی اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑی نعمت ہے اور امانت، بھی اس لیے جو شخص بزدلی یا کم عقلی کا ثبوت دیتے ہوئے اللہ کی دی ہوئی نعمت کو اپنے ہی ہاتھ سے ضائع کرے گا اور اللہ کی دی ہوئی امانت (زندگی) کو خیانت کر کے ختم کر دے گا تو وہ پکا مسلمان کیسے ہوسکتا ہے ؟ اسی لیے اس کو جہنم کا عذاب اور دوسرا عذاب جو اس نے زندگی ختم کرنے کے لیے اپنے اوپر کیا وہ اس کو بار بار برداشت کرنا پڑے گا۔ خود کشی ہر طرح سے گھاٹے کا سودا ہے، اس لیے ہمت سے کام لے کر اللہ کی طرف سے آئی ہوئی بیماری، مصیبت اور پریشانی کو برداشت کرنا چاہیے کیونکہ یہ اللہ کی طرف سے آزمائش ہوتی ہے۔ جو اس میں پورا اترے، صبر سے کام لے اور اللہ کی رضا سمجھ کر شکر ادا کرتا رہے وہی مقبول الٰہی ہوتا ہے اور اس طرح اس کے کیے گئے گناہوں کو بھی اللہ معاف کردیتا ہے۔ کیونکہ یہ سب اللہ کی حکمت کے تحت ہی ہو رہا ہوتا ہے۔ وہ تو اس قدر دانا اور علم رکھنے والا ہے کہ جس قدر لوگ دنیا سے جا چکے ہیں اور جس قدر جانے والے ہیں ان سب کو قیامت کے دن اپنے پاس اکٹھا کرے گا کیونکہ اللہ ہی تمام مخلوقات کا وارث اور مالک ہے اور پھر وہ اس قدر علم رکھتا ہے کہ ہر شخص کی نیت ارادہ اور اعمال کو وہ خوب اچھی طرح جانتا ہے جیسا کہ پچھلے اسباق میں بتایا جا چکا ہے کہ اس کام کے لیے اللہ نے اس قدر مضبوط بندوبست کر رکھا ہے۔ وہ علیم بذات الصدور ہے ہر ایک بات کو سنتا اور جانتا ہے۔ فضائی لہروں کی صورت میں، قدرتی کیمروں کے ساتھ اور فرشتوں کے ذریعے کہ سب کام خود بخود فلمایا جا رہا ہے، ٹیپ کیا جا رہا ہے۔ ہر چیز کو محفوظ اور ریکارڈ کروا کے گواہی کے لیے تیار کی جارہی ہے، جبکہ اللہ کا یہ بندوبست اور اس کا علم تو کسی بندے بشر کے احاطہ میں نہیں آسکتا۔ وہ ہمارے تصور، ہماری عقل اور ہمارے ادراک سے بہت بہت اور بہت ہی بلند وبالا ہے۔ باوجود اس کے کہ وہ عرش پر مستوی ہے، آسمانوں پر بلند ہے لیکن پوری کائنات کو وہاں سے وہ کنٹرول کر رہا ہے۔
Top