Mafhoom-ul-Quran - Al-Hijr : 19
وَ الْاَرْضَ مَدَدْنٰهَا وَ اَلْقَیْنَا فِیْهَا رَوَاسِیَ وَ اَنْۢبَتْنَا فِیْهَا مِنْ كُلِّ شَیْءٍ مَّوْزُوْنٍ
وَالْاَرْضَ : اور زمین مَدَدْنٰهَا : ہم نے اس کو پھیلا دیا وَاَلْقَيْنَا : اور ہم نے رکھے فِيْهَا : اس میں (پر) رَوَاسِيَ : پہاڑ وَاَنْۢبَتْنَا : اور ہم نے اگائی فِيْهَا : اس میں مِنْ : سے كُلِّ شَيْءٍ : ہر شئے مَّوْزُوْنٍ : موزوں
اور زمین کو بھی ہم ہی نے پھیلایا، اور اس میں پہاڑ بنا کر رکھ دیے اور اس میں ہر چیز اندازے سے اگائی گئی۔
خزانوں کا مالک صرف اللہ ہے تشریح : یہ آیات اللہ کی شان اس کی حکمت، کاریگری، طاقت، عظمت اور اس کے رازق و خالق اعظم ہونے کی بہت زبردست دلیلیں پیش کرتی ہیں۔ سبحان اللہ۔ اللہ اکبر۔ اس خالق (پیدا کرنے والا) اور المُتّکبرّ (بڑائی اور بزرگی والا) رحمن و رحیم کی جس قدر بندگی کریں کم ہے۔ کیونکہ اسی نے ہمیں پیدا کیا۔ رہنے کے لیے انتہائی پر آسائش زمین، کھانے کے لیے بہترین نباتات، حیوانات، پینے کے لیے بہترین پانی کے ذرائع، سانس لینے کے لیے صاف ستھری ٹھنڈی میٹھی ہوائیں، غرض کیا کچھ بیان کریں کہ اس نے اپنے بندوں کو کیسے کیسے خزانے، برکتیں اور نعمتیں عطا کر رکھی ہیں۔ کتنا شکر ادا کریں تو اس کا حق ادا نہیں کرسکتے۔ یہ سب کچھ تو ظاہری باتیں ہیں۔ یہاں انسان کے لیے ایسے ایسے سائنسی حقائق بیان کیے گئے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ جو راز آج کل انتہائی کوششوں کے بعد معلوم کیے جا رہے ہیں وہ اللہ نے ہمیں اپنی کتاب کے ذریعے ان مختصر آیات میں کس حکمت سے بتا دیے ہیں۔ مثلاً فرمایا ” ہم نے زمین کو پھیلایا ایک ڈھنگ سے اور پھر اس میں پہاڑ بنا کر رکھ دیے۔ اور اس میں ہر چیز اندازے سے اگائی گئی۔ ، ، زمین کا پھیلانا بڑا معنی خیز ہے۔ زمین کی بناوٹ کے بارے میں پچھلے اسباق میں بڑی تفصیل سے بتایا جا چکا ہے، یعنی زمین کی ساخت، گھومنا اور جھکائو یہ سب موسم، ہوائوں، بادلوں، نباتات، حیوانات اور ہر مخلوق و انسان کے لیے بےحد ضروری ہے۔ یہاں یہی بات واضح کی گئی ہے کہ زمین اور زمین میں پیدا کی گئی ہر چیز میں ایک زبردست توازن ہے۔ جیسا کہ ڈاکٹر ہلوک نور باقی صاحب لکھتے ہیں کہ ” آج تک جو تحقیقات ہوچکی ہیں ان کے تحت پودوں، حیوانوں اور بکٹیریا (جراثیم) کے درمیان ایک متوازن عمل اور رد عمل کا سلسلہ قائم ہے۔ بکٹیریا کے ذمے یہ کام ہے کہ وہ حیوانوں سے نائٹروجن حاصل کر کے پودوں تک پہنچاتا ہے، پودے آکسیجن بناتے ہیں جو حیوانوں اور دیگر جسموں کی ضرورت ہے اور جانور کاربن ڈائی آکسائیڈ اور بکٹیریا کے توسط سے نائٹروجن کو پودوں تک پہنچاتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ہوا میں آکسیجن کا بیس فیصدی کی حد تک قائم رہنا ضروری ہے۔ “ مزید لکھتے ہیں ” اس طرح ایک عظیم خدائی کمپیوٹر ہی چاہیے جو پودوں کی اس تعداد کا حساب رکھے، جو چمنیوں سے نکلتے ہوئے دھوئیں اور انسانوں کے آکسیجن کے خرچ کا بھی حساب رکھے، اور پھر ہوا کے لیے بھی مناسب مقدار میں آکسیجن کی فراہمی کا انتظام کرے۔ (از قرآنی آیات اور سائنسی حقائق) یہ سب لکھنے کا مطلب یہ ہے کہ نباتات اگنے کا حساب کتاب بارش، پانی اور ہوا زمینی ساخت کا اتنا بہترین انتظام کیا گیا ہے ” تاکہ اس میں ہر نوع کی نباتات ٹھیک نپی تلی مقدار کے ساتھ اگائیں۔ “ یہ حساب کتاب وقت، زمانے اور ماحول کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ تبدیل کرتے رہتے ہیں، مثلاً آج اسے کروڑوں سال قبل نباتات اور حیوانات کا سلسلہ کچھ مختلف تھا اس وقت کی ضرورت کے مطابق، مثلاً اس وقت آکسیجن کے توازن کو بڑھانے کے لیے زمین نباتات سے ڈھکی ہوئی تھی۔ اور اس کے بعد جیسے جیسے انسانوں کی تعداد اور ضروریات بڑھتی گئیں اسی تناسب سے جنگلات کو بچانے کے لیے رب العزت نے انسان کو کوئلہ، گیس اور تیل کے وہ خزانے عطا کردیے کہ جو قدرتی نظام کے ذریعہ کروڑوں سالوں میں قدرت نے تیار کر رکھے تھے اور اب انسان کے حوالے کردیے کہ اپنی ضروریات کو آسانی سے پورا کرسکے۔ اسی طرح دھاتوں کے بیشمار خزانے زمین میں دفن ہیں جن کو انسان نکال کر اپنی ضروریات پوری کرتا ہے۔ اس آیت میں پہاڑوں کا ذکر اس انداز سے کیا گیا ہے گویا یہ زمین کی مضبوطی کے لیے میخیں گاڑ دی گئی ہیں۔ ڈاکٹر ہلوک باقی صاحب بڑے پر اثر انداز سے لکھتے ہیں : ” ہمارے عظیم خالق نے زمین کی سطح کو پائیداری دینے کے لیے اس پر ایک طرح سے بڑے بڑے وزن مہیا کردیے ہیں، یہ پہاڑوں کے سلسلوں کی صورت میں ہیں، جن کی ساخت میں پوٹاشیم، سلیکون اور بہت سی دوسری دھاتیں مرکوز کردی گئی ہیں۔ پہاڑی سلسلوں کو زمین کی سطح پر اور سمندر کی تہوں میں ایک بےحد نازک، پیچیدہ اور صحیح اندازوں کے ساتھ بنا دیا گیا ہے بالکل ایک مادی گریو یور (Gravuere) کی طرح، چناچہ اس طریقہ سے زمین کے مرکز میں اندر کی سیمابی آگ کو قابو میں رکھا گیا ہے۔ “ (از قرآنی آیات اور سائنسی حقائق) ہوائوں کا ذکر یہاں بادلوں کے تعلق سے کیا گیا ہے، ورنہ تو ہوائوں کے فوائد بیشمار ہیں۔ ہوائوں کا وجود بھی زمینی ساخت سے بڑا گہرا تعلق رکھتا ہے۔ سادہ سا علم تو یہ ہے کہ ہر طرف سے آنے والی ہوائیں زمین کے ہر حصہ تک پہنچتی ہیں ان کا اور کاموں کے علاوہ ایک بہت خاص ضروری اور اہم کام یہ ہے کہ وہ سمندر سے اٹھنے والے صاف شفاف بخارات کو بادلوں کی شکل دے کر دنیا کے دور دراز ضرورت مند علاقوں تک پہنچا دیتی ہیں اور پھر پانی کے قطروں کو اور برف کے گرنے کو اس قدر خوبصورت شکل میں ڈھال دیتی ہیں کہ ہر قطرہ بغیر کسی نقصان پہنچائے مقررہ نظام کے تحت زمین پر یوں پرسکون اور آرام دہ طریقہ سے گرتا ہے، جیسے پیراشوٹ کے ذریعے سے اوپر سے نیچے اترتا ہو۔ پھر وہ پانی لوگوں کے پینے، جانوروں کے پینے اور زمین کی سیرابی کے لیے بڑے بڑے ذخائر کی صورت میں سٹور ہوجاتا ہے۔ کچھ سمندر میں، دریائوں، نہروں، تالابوں، جوہڑوں اور بڑی بڑی جھیلوں میں کچھ زمین کے اندر ذخیرہ ہوجاتا ہے جو بعد میں لوگ کنویں کھود کر استعمال کرتے رہتے ہیں۔ یہ تمام طریقے پانی حاصل کرنے کے صرف اللہ کے مقرر کیے گئے حساب کتاب سے ہی انسان کو ملتا ہے یہ کوئی بڑے سے بڑا سائنسدان، عالم فاضل لوگوں کی ٹیم مل کر بھی پانی کا اتنا محکم، بہترین اور شاندار بندوبست کسی صورت نہیں کرسکتے۔ انسان کا حال تو یہ ہے کہ جب بھی کسی وجہ سے جس میں سب سے بڑی وجہ اللہ کی رضا ہے، بارش وقت پر نہ ہو یا برف باری میں تاخیر ہوجائے یا نہ ہو، تو انسان پریشان لا چار ہو کر اللہ کے آگے عاجزی سے سر جھکاتا ہے، گناہوں کی معافی مانگتا ہے بارش کے لیے نماز استسقاء پڑھتا ہے غرض اس لحاظ سے انسان کے ہاتھ بالکل خالی ہیں ہر قسم کے تمام خزانے صرف اور صرف پروردگار کے ہاتھ میں ہیں۔ وہی تمام انتظامات کرنے والا ہے اور ہر جن و بشر، کیڑے مکوڑے زمین کے اوپر رہنے والے ہوں، فضا میں اڑنے والے ہوں یا سمندروں کی تہوں میں رہنے والے ہوں غرض ہر مخلوق کی خوراک کا بندوبست اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ اس نے سب کا رزق بڑے اندازے کے مطابق اپنے حساب کتاب سے لکھ رکھا ہے۔ غرض دنیا و آسمان بلکہ کل کائنات کی تمام موجودات اللہ کے خاص طور پر مقرر کیے ہوئے اندازے کے مطابق چل رہے ہیں اگر اس میں ذرا سا فرق بھی آجائے تو کائنات کا نظام درہم برہم ہوجائے۔ یہ تمام طاقت، قدرت اور کمال خالق دوجہان رب العلمین کے سوا کوئی کرسکتا ہے ؟ ناممکن ہے۔ کس قدر شرک کرتے ہیں وہ لوگ جو اللہ کے مقابلے میں کسی اور کو داتا اور گنج بخش کہتے ہیں حالانکہ داتا اور گنج بخش اللہ کے علاوہ کوئی نہیں ہے، تو پھر کیوں نہ اسی مالک الملک خالق کون و مکاں کے سامنے دست بستہ حاضر ہو کر سر تسلیم خم کیا جائے وہی تو ہے جو مارتا ہے اور زندہ کرتا ہے۔ اس کی قدرتیں اگلی آیات میں اور بھی تفصیل سے بیان کی گئی ہیں۔
Top