Madarik-ut-Tanzil - Al-Furqaan : 77
قُلْ مَا یَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّیْ لَوْ لَا دُعَآؤُكُمْ١ۚ فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ یَكُوْنُ لِزَامًا۠   ۧ
قُلْ : فرما دیں مَا يَعْبَؤُا : پرواہ نہیں رکھتا بِكُمْ : تمہاری رَبِّيْ : میرا رب لَوْلَا دُعَآؤُكُمْ : نہ پکارو تم فَقَدْ كَذَّبْتُمْ : تو جھٹلا دیا تم نے فَسَوْفَ : پس عنقریب يَكُوْنُ : ہوگی لِزَامًا : لازمی
کہہ دو کہ اگر تم (خدا کو) نہیں پکارتے تو میرا پروردگار بھی تمہاری کچھ پروا نہیں کرتا تم نے تکذیب کی ہے تو اسکی سزا (تمہارے لئے) لازم ہوگی
اگر تمہیں اسلام کی طرف دعوت دینا نہ ہوتا : 77: قُلْ مَا یَعْبَؤُابِکُمْ رَبِّیْ لَوْ لَا دُعَآؤُ کُمْ (آپ کہہ دیں میرے رب کو تمہاری ذرہ بھر پرواہ نہیں اگر تم عبادت نہ کرو گے) اس میں استفہام کا معنی خود پایا گیا۔ اور یہ محل نصب میں ہے مطلب یہ ہے : ما یصنع لکم ربی میرے رب نے تمہیں کیا کرنا ہے اگر تمہارا اسلام کی دعوت دینا طے نہ ہوچکا ہوتا۔ نمبر 2۔ اگر تم اس کی عبادت نہ کرتے ہوتے یعنی اس نے اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا جیسا کہ فرمایا وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون ] الزاریات : 56[ تمہارا اعتبار تمہارے رب کے ہاں تمہاری عبادت ہی کی وجہ سے ہے۔ نمبر 2۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں عذاب دیکر کیا کرنا ہے اگر تم اس کے ساتھ دوسروں کو پکارنے والے نہ ہوتے یہ اس ارشاد کی طرح ہے : مایفعل اللہ بعذ ابکم ان شکرتم ] النساء : 147[ فَقَدْ کَذَّبْتُمْ (پس تم نے اے اہل مکہ میری رسالت کو جھٹلا دیا) ۔ فَسَوْفَ یَکُوْنُ لِزَامًا (عنقریب لازم پکڑنے والا عذاب ہوگا) ۔ نمبر 2۔ چمٹنے والا۔ ای ذا لزام یا ملازمًا لازم کے مصدر کو اسم فاعل کی جگہ لائے۔ قولِ ضحاک : اسکو تمہارے بخش دینے کی کیا پرواہ ہے (اسکے خزانوں میں اس سے کچھ کمی نہیں آجاتی) اگر تم اس کے ساتھ دوسروں کو نہ پکارو۔ تمت ترجمۃ سورة الفرقان لیلۃ یوم الا ثنین 4 جنوری 2003؁ الموافق 30 شوال 1423؁ھ
Top