Madarik-ut-Tanzil - Al-Furqaan : 57
قُلْ مَاۤ اَسْئَلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍ اِلَّا مَنْ شَآءَ اَنْ یَّتَّخِذَ اِلٰى رَبِّهٖ سَبِیْلًا
قُلْ : فرما دیں مَآ اَسْئَلُكُمْ : نہیں مانگتا تم سے عَلَيْهِ : اس پر مِنْ : کوئی اَجْرٍ : کوئی اجر اِلَّا : مگر مَنْ شَآءَ : جو چاہے اَنْ يَّتَّخِذَ : کہ اختیار کرلے اِلٰى رَبِّهٖ : اپنے رب تک سَبِيْلًا : راستہ
کہہ دو کہ میں تم سے اس (کام) کی اجرت نہیں مانگتا ہاں جو شخص چاہے اپنے پروردگار کی طرف (جانے کا) راستہ اختیار کرے
تبلیغ پر اجرت نہیں مانگتا : 57: قُلْ مَآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ (کہ دین میں تم سے اس پر نہیں مانگتا) تبلیغ رسالت پر مِنْ اَجْرٍ (کوئی اجرت) انعام اس کی مثل اِلَّا مَنْ شَآ ئَ اَنْ یَّتَّخِذَ اِلٰی رَبِّہٖ سَبِیْلًا (مگر جو شخص چاہیے اپنے رب کی طرف پہنچنے کا راستہ بنالے) مطلب یہ ہے مگر اس کا عمل جس نے چاہا۔ اجر کے استثناء کی مثال : اجرؔ کا استثناء اسی طرح ہے جیسا کہ کوئی تمہارا بڑا محسن ہو اور تمہارے لئے اس نے حصول میں تگ ودوہ بھی کی ہو۔ وہ کہے۔ ما اطلب منک ثوابا علی ماسعیت الا ان تحفظ ھذا المال ولا تضعہٗمیں تم سے اپنی معاونت پر ثواب نہیں چاہتا مگر اتنی بات ضرور چاہتا ہوں کہ تو اس مال کی حفاظت کر اور اس کو ضائع مت کر۔ یہاں تمہارا حفاظت مال کا مطالبہ تمہارے اپنے نفس کیلئے ثواب کی قسم سے نہیں لیکن اس کو ثواب کی شکل میں پیش کیا ہے گویا وہ کہنا چاہتا ہے کہ تیرا اپنے مال کی حفاظت کرنا یہ میرے لئے بمنزلہ ثواب ہے اور میری اس پر رضامندی اس شخص کی طرح ہے جو ثواب پر راضی ہو۔ اور میری عمر کی قسم کہ آنحضرت ﷺ اپنے امت کے ساتھ اس مقام پر تھے۔ اتخاذھم الی اللہ سبیلاؔ کا معنی ایمان وطاعت سے تقرب حاصل کرنا۔ نمبر 2۔ صدقہ و نفقہ سے قرب حاصل کرنا۔ ایک قول یہ ہے کہ مراد یہ ہے لیکن جو یہ چاہے کہ وہ مال خرچ کر کے اللہ تعالیٰ کی رضا کا راستہ اختیار کرے اس کو ایسا ضرور کرنا چاہیے۔ ایک اور قول یہ ہے کہ تقدیر کلام اس طرح ہے لا اسالکم علی ما ادعو کم الیہ اجرًا الا اتخاذ المدعو سبیلاً الی ربہٖ بطاعتہ۔ فذلک اجری لان اللہ یا جرنی علیہ میں تمہیں جس چیز کی طرف دعوت دیتا ہوں اس پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا سوائے اس کے کہ جس کو دعوت دی گئی ہو وہ اطاعت سے اپنے رب کی طرف سے راستہ بنائے پس یہی میرا اجر ہے اسی پر میرا رب مجھے اجر دے گا۔
Top