Madarik-ut-Tanzil - Al-Baqara : 182
فَمَنْ خَافَ مِنْ مُّوْصٍ جَنَفًا اَوْ اِثْمًا فَاَصْلَحَ بَیْنَهُمْ فَلَاۤ اِثْمَ عَلَیْهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠   ۧ
فَمَنْ : پس جو خَافَ : خوف کرے مِنْ : سے مُّوْصٍ : وصیت کرنے والا جَنَفًا : طرفداری اَوْ اِثْمًا : یا گناہ فَاَصْلَحَ : پھر صلح کرادے بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان فَلَآ اِثْمَ : پس نہیں گناہ عَلَيْهِ : اس پر اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : رحم کرنے والا
اگر کسی کو وصیت کرنے والے کی طرف سے (کسی وارث کی) طرفداری یا حق تلفی کا اندیشہ ہو تو اگر وہ (وصیت کو بدل کر) وارثوں میں صلح کرا دے تو اس پر کچھ گناہ نہیں بیشک خدا بخشنے والا (اور) رحم والا ہے
تفسیر آیت 182: فَمَنْ خَافَ مِنْ مُّوْصٍ جَنَفًا اَوْ اِثْمًا فَاَصْلَحَ بَیْنَھُمْ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ ط اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ: (جس کو خطرہ ہو وصیت کرنے والے کی طرف سے طرفداری کا یا گناہ کا پس اس نے اصلاح کردی ان کے درمیان تو اس پر کچھ گناہ نہیں بیشک اللہ بخشنے والے مہربان ہیں) خوف کا مطلب : فَمْنَ خَافَ ۔ جس کو خطرہ ہوا خاف کا معنی جاننا ہے اور کلام عرب میں یہ معروف ہے۔ کہا جاتا ہے اخاف ان یرسل السمآء۔ مقصد اس سے ظن غالب ہوتا ہے جس کو علم کے قائم مقام لاتے ہیں۔ جیسا اس آیت میں فان خفتم ان لا یقیما۔ اگر تم جانو کہ وہ قائم نہیں رکھ سکیں گے۔ من موصٍ ۔ وصیت کرنے والے سے۔ قراءت۔ یہ قراءت کو فی میں مُوَصٍّ پڑھا گیا۔ سوائے حفص کے۔ جنف و اثمکا فرق : جَنَفًا اَوْ اِثْمًا۔ وہ طرف داری جو خطاء سے وصیت میں واقع ہو۔ اثم وہ زیادتی جو جان بوجھ کر کی جائے۔ ہر تبدیلی باطل نہیں : فاصلح بینھم۔ اس نے ان کے درمیان اصلاح کردی۔ یعنی اولاد اور قرابت داروں کو طریق شرع پر لاکر ان میں اصلاح کردی۔ تو اس صورت میں اس پر گناہ نہ ہوگا۔ کیونکہ اس کی یہ تبدیلی تو تبدیلی باطل الی الحق ہے۔ اس کا تذکرہ جو باطل سے تبدیل کر کے پھر اس کو حق سے بدل دے تو پھر بھی گناہ نہیں۔ تاکہ معلوم ہوجائے کہ ہر تبدیلی سے گناہگار نہیں ہوتا۔ دوسرا قول : یہ وصیت کرنے والے کی زندگی میں حکم ہے یعنی جو آدمی کسی وصیت کرنے والے کی وصیت کے وقت موجود تھا۔ پھر اس کو خلاف شرع پا کر اس سے اس کو منع کیا اور اس کو اصلاح پر آمادہ کیا۔ تو اب وصیت کرنے والے کے پہلے قول پر اس کو گناہ نہ ملے گا۔ بیشک اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہیں۔
Top