Madarik-ut-Tanzil - Al-Baqara : 127
وَ اِذْ یَرْفَعُ اِبْرٰهٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَ اِسْمٰعِیْلُ١ؕ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا١ؕ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
وَ : اور اِذْ : جب يَرْفَعُ : اٹھاتے تھے اِبْرَاهِيمُ : ابراہیم الْقَوَاعِدَ : بنیادیں مِنَ الْبَيْتِ : خانہ کعبہ کی وَ : اور اِسْمَاعِيلُ : اسماعیل رَبَّنَا : ہمارے رب تَقَبَّلْ : قبول فرما مِنَّا : ہم سے اِنَکَ : بیشک اَنْتَ : تو السَّمِيعُ : سننے والا الْعَلِيمُ : جاننے والا
اور ابراہیم اور اسماعیل بیت اللہ کی بنیادیں اونچی کر رہے تھے (تو دعا کیے جاتے تھے کہ) اے پروردگار ہم سے یہ خدمت قبول فرما۔ بیشک تو سننے والا (اور) جاننے والا ہے۔
127۔ وَاِذْ یَرْفَعُ اِبْرَاہِیمُ : (جب ابراہیم بلند کر رہے تھے) یہ زمانہ ماضی کی حکایت بیان کی۔ الْقَوَاعِدَ : (خانہ کعبہ کی بنیادیں) القواعد جمع قاعدہ کی ہے اور قاعدہ کہتے ہیں جو اوپر کے لئے بنیادو جڑ کا کام دے۔ یہ صفت غالبہ ہے ورنہ اس کا معنی قائم ہونے والی اور رفع الاساس اس پر تعمیر کرنے کو کہتے ہیں۔ کیونکہ جب اس پر تعمیر کی جائے گی۔ تو وہ پستی سے بلندی میں منتقل ہوجائے گی اور قصیر ہونے کے بعد طویل ہوجائے گی۔ مِنَ الْبَیْتِ : (بیت اللہ کی) بیت سے مراد بیت اللہ وہ کعبہ شریف ہے۔ وَاِسْمٰعِیْلُ : (اور اسماعیل) اس کا عطف ابراہیم پر ہے ابراہیم ( علیہ السلام) معماری کر رہے تھے اور اسماعیل ان کو پتھر پکڑا رہے تھے۔ رَبَّنَا : (اے ہمارے رب) وہ دونوں ربنا کہتے تھے۔ یہ فعل حال ہونے کی وجہ سے محل نصب میں ہے اور عبداللہ نے اپنی قراءت میں اس کو ظاہر بھی کیا ہے اور اب اس کا معنی یہ ہے وہ دونوں دیواروں کو ربنا کہتے ہوئے بلند کر رہے تھے۔ تَقَبَّلْ مِنَّا : (تو ہم سے قبول کر) اس گھر کی تعمیر کے سبب ہمارا قرب اپنی بارگاہ میں قبول کر۔ اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ : (بےشک تو ہر بات سننے والا ہے) ہماری دعائوں کو سننے والے۔ الْعَلِیْمُ : (اور ہر بات جاننے والا ہے) ہمارے بواطن اور نیات کو جاننے والے ہیں۔ آیت میں قواعد کو پہلے مبہم رکھا اور پھر اس ابہام کے بعد واضح کردیا اس میں مبین کی عظمت شان کو ظاہر کرنا مقصود ہے۔
Top