Madarik-ut-Tanzil - Al-Israa : 72
وَ مَنْ كَانَ فِیْ هٰذِهٖۤ اَعْمٰى فَهُوَ فِی الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى وَ اَضَلُّ سَبِیْلًا
وَمَنْ : اور جو كَانَ : رہا فِيْ هٰذِهٖٓ : اس (دنیا) میں اَعْمٰى : اندھا فَهُوَ : پس وہ فِي الْاٰخِرَةِ : آخرت میں اَعْمٰى : اندھا وَاَضَلُّ : اور بہت بھٹکا ہوا سَبِيْلًا : راستہ
اور جو شخص اس (دنیا) میں اندھا ہو وہ آخرت میں بھی اندھا ہوگا۔ اور (نجات کے) راستے سے بہت دور۔
دنیا میں کفر آخرت کا اندھا پن : 72: وَمَنْ کَانَ فِیْ ھٰذِہٖٓ (اور جو شخص اس دنیا کی زندگی میں) اَعْمٰی فَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰی (اندھا ہے۔ وہ آخرت میں بھی اندھا ہوگا۔ ) اسی طرح وَاَضَلُّ سَبِیْلًا (اور زیادہ راستہ سے بھٹکا ہوگا) یعنی اندھے سے بھی زیادہ گمراہ ہوگا۔ اعمٰی کے لفظ کو استعارۃً اس کے لئے استعمال فرمایا جو مبصرات کو بھی نہ دیکھے۔ کیونکہ اس کے حواس میں خرابی ہے اس شخص کی طرح کہ نجات کے راستے کی طرف راہ نہ پائے۔ دنیا میں تو اس لئے کہ غور و فکر نہیں پائی جاتی اور آخرت میں اس لئے کہ اب رہنمائی فائدہ نہیں دے سکتی۔ علماء نے یہ بھی جائز قرار دیا کہ دوسرا اعمی کا لفظ تفصیل کے معنی میں لیا جائے اس کی دلیل یہ ہے کہ اَضَلُّ کو اس پر عطف کے طور پر ذکر کیا گیا۔ جو کہ تفضیل کا صیغہ ہے اسی لئے ابو عمر و نے اپنی قراءت میں پہلے کو امالہ کے ساتھ اور دوسرے کو تفخیم کے ساتھ پڑھا ہے۔ کیونکہ اسم تفضیل تمام کا تمام من کے ساتھ آتا ہے۔ اور اس کے الف کا حکم وسط کلمہ کا ہے اس لئے وہ امالے کو قبول نہیں کرتا رہا اول اس کے ساتھ کوئی چیز بھی متعلق نہیں۔ پس اس کا الف ایک طرف میں واقعہ ہے اس لئے اس نے امالے کو قبول کرلیا۔ حمزہ اور علی نے دونوں کو امالے کے ساتھ پڑھا ہے جبکہ بقیہ قراء نے تفخیم کے ساتھ پڑھا ہے۔
Top