Madarik-ut-Tanzil - Al-Israa : 109
وَ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ یَبْكُوْنَ وَ یَزِیْدُهُمْ خُشُوْعًا۩  ۞
وَيَخِرُّوْنَ : اور وہ گرپڑتے ہیں لِلْاَذْقَانِ : ٹھوڑیوں کے بل يَبْكُوْنَ : روتے ہوئے وَيَزِيْدُهُمْ : اور ان میں زیادہ کرتا ہے خُشُوْعًا : عاجزی
اور وہ ٹھوڑیوں کے بل گرپڑتے ہیں (اور) روتے جاتے ہیں اور اس سے ان کو اور زیادہ عاجزی پیدا ہوتی ہے۔
109: وَیخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ یَبْکُوْنَ (وہ ٹھوڑیوں کے بل گرتے ہوئے روتے ہیں) الخرور للذقن کا معنی چہرے کے بل گرنا ہے۔ ٹھوڑی کو خاص کرنے کی وجہ یہ ہے کہ سجدہ میں زمین کی طرف سب سے زیادہ قریب چہرے کا حصہ ٹھوڑی ہے۔ کہا جاتا ہے خر علی وجھہ وعلی ذقنہ و خرّ لوجھہ ولذقنہٖ ۔ علی ؔ کا معنی تو ظاہر ہے۔ رہا لام کا معنی تو گویا اس نے اپنی ٹھوڑی اور چہرے کو خرور کیلئے مقرر کردیا اور خاص کردیا کیونکہ تخصیص کو ظاہر کرتی ہے۔ یخرونؔ لِلْاَذْ قَانِ کو دوبارہ لائے۔ کیونکہ دونوں حالتیں مختلف ہیں۔ اور وہ دونوں حالتیں یہ ہیں انکا گرنا اس حالت میں کہ وہ سجدہ ریز ہیں۔ نمبر 2۔ انکا گرنا اس حالت میں کہ وہ رونے والے ہیں۔ وَ یَزِیْدُھُمْ خُشُوْعًا ( اور وہ انکا خشوع بڑھا تا ہے۔ ) یعنی قرآن۔ خُشُوْع دل کی نرمی اور آنکھ کی رطوبت کو کہتے ہیں۔
Top