Madarik-ut-Tanzil - Al-Israa : 100
قُلْ لَّوْ اَنْتُمْ تَمْلِكُوْنَ خَزَآئِنَ رَحْمَةِ رَبِّیْۤ اِذًا لَّاَمْسَكْتُمْ خَشْیَةَ الْاِنْفَاقِ١ؕ وَ كَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا۠   ۧ
قُلْ : آپ کہ دیں لَّوْ : اگر اَنْتُمْ : تم تَمْلِكُوْنَ : مالک ہوتے خَزَآئِنَ : خزانے رَحْمَةِ : رحمت رَبِّيْٓ : میرا رب اِذًا : جب لَّاَمْسَكْتُمْ : تم ضرور بند رکھتے خَشْيَةَ : ڈر سے الْاِنْفَاقِ : خرچ ہوجانا وَكَانَ : اور ہے الْاِنْسَانُ : انسان قَتُوْرًا : تنگ دل
کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے تو تم خرچ ہوجانے کے خوف سے (ان کو) بند رکھتے اور انسان دل کا بہت تنگ ہے۔
100: قُلْ لَّوْاَنْتُمْ تَمْلِکُوْنَ (کہدیں اگر تم مالک ہوتے) تقدیر عبارت یہ ہے لو تملکون انتم۔ نحو : کیونکہ لَوْ افعال پر داخل ہوتا ہے اسماء پر نہیں۔ پس فعل کا لانا اس کے بعد ضروری ہے۔ پس تملک کو مضمر مان لیا گیا کیونکہ اس کی تفسیر آرہی ہے اور ضمیر منفصل کی بجائے ضمیر متصل لائے اور وہ انتم ہے کیونکہ جس سے وائو متصل تھی وہ لفظوں میں ساقط ہوگیا پس انتم فعل مضمر کا فاعل ہے اور تملکونؔ اس کی تفسیر ہے۔ علم نحوکا یہی تقاضہ ہے۔ اہل علم بیان کہتے ہیں کہ انتم تملکون میں اختصاص کی دلالت پائی جاتی ہے اور لوگ ہی انتہائی بخل کے ساتھ خاص ہیں۔ خَزَآئِنَ رَحْمَۃِ رَبِّیْ (میرے رب کی رحمت کے خزانوں کے) رزق اور تمام انعامات جو اس نے اپنی مخلوقات پر کر رکھے ہیں۔ اِذًا لَّاَ مْسَکْتُمْ خَشْیَۃَ الْاِنْفَاقِ (تو اس صورت میں تم ضرور خرچ کرنے سے ہاتھ روک لیتے) تم ضرور بخل کرتے اس ڈر سے کہ کہیں انفاق ان کو ختم نہ کر ڈالے۔ وَکَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا (انسان بڑا تنگدل ہے) قتور کا معنی بخیل ہے۔
Top