Madarik-ut-Tanzil - Al-Hijr : 59
اِلَّاۤ اٰلَ لُوْطٍ١ؕ اِنَّا لَمُنَجُّوْهُمْ اَجْمَعِیْنَۙ
اِلَّآ : سوائے اٰلَ لُوْطٍ : گھر والے لوط کے اِنَّا : ہم لَمُنَجُّوْهُمْ : البتہ ہم انہیں بچا لیں گے اَجْمَعِيْنَ : سب
مگر لوط کے گھر والے کہ ان سب کو ہم بچا لیں گے۔
59: اِلَّآ ٰالَ لُوْطٍ (مگر آل لوط) مراد اس سے آپ کے اہل میں سے جو مومن تھے۔ یہ استثناء منقطع ہے کیونکہ یہ قوم جرائم پیشہ تھی اور مستثنیٰ اسطرح نہیں۔ نمبر 2۔ مستثنیٰ متصل ہے۔ پھر یہ مجرمین کی ضمیر سے مستثنیٰ ہے۔ گویا اسطرح کہا الی قوم قد اجر مواکلھم الا آل لوط وحدھم ایسی قوم کی طرف جن تمام نے جرم کیا ہے مگر صرف آل لوط۔ مطلب دونوں استثناء کی صورت میں الگ لگ ہوگا۔ کیونکہ منقطع کی صورت میں آل لوط کو حکم ارسال سے نکالا جائے گا۔ تقدیر عبارت یہ ہوگی۔ انہم ارسلوا الی القوم المجرمین خاصۃ ولم یرسلوا الی آل لوط اصلاً اور معنی یہ ہوگا۔ ان کا بھیجنا قوم مجرمین کی طرف ہوگا جیسا کہ تیر کو نشانہ کی طرف پھینکا جاتا ہے اسطرح کہ وہ تعذیب واہلاک کے معنی میں ہوگا۔ گویا عبارت اس طرح ہے۔ انا اہلکنا قومًا مجرمین ولکن آل لوط انجیناھم۔ بیشک ہم نے مجرم قوم کو ہلاک کردیا۔ لیکن آل لوط کو ہم نے بچا لیا۔ استثنائے متصل وہ ارسال کے حکم میں داخل ہونگے۔ یعنی ملائکہ کو ان تمام کی طرف بھیجا گیا تاکہ وہ ان کو ہلاک کریں اور دوسرے نجات پائیں۔ جب استثناء منقطع ہوگا تو انا لمنجوھم اجمعینخبر کے قائم مقام ہوگا۔ اور استثناء متصل میں آل لوط سے متعلق ہوگا۔ کیونکہ مطلب یہ ہے لیکن آل لوط نجات پانیوالی ہے۔ استثناء متصل کی سورت میں جملہ مستانفہ ہے گویا ابراہیم (علیہ السلام) نے انہیں کہا آل لوط کا کیا معاملہ ہے ؟ تو انہوں نے کہا اِنَّا لَمُنَجُّوْھُمْ اَجْمَعِیْنَ ۔
Top