Madarik-ut-Tanzil - Al-Hijr : 39
قَالَ رَبِّ بِمَاۤ اَغْوَیْتَنِیْ لَاُزَیِّنَنَّ لَهُمْ فِی الْاَرْضِ وَ لَاُغْوِیَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَۙ
قَالَ : اس نے کہا رَبِّ : اے میرے رب بِمَآ : جیسا کہ اَغْوَيْتَنِيْ : تونے مجھے گمراہ کیا لَاُزَيِّنَنَّ : تو میں ضرور آراستہ کروں گا لَهُمْ : ان کے لیے فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَلَاُغْوِيَنَّهُمْ : اور میں ضرور گمراہ کروں گا ان کو اَجْمَعِيْنَ : سب
(اس نے) کہا پروردگار جیسا تو نے مجھے راستے سے الگ کیا ہے میں بھی زمین میں لوگوں کے لئے (گناہوں کو) آراستہ کر دکھاؤں گا اور سب کو بہکاؤں گا۔
اغرائے انسانی پر قسم : 39: قَالَ رَبِّ بِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ (اس نے کہا اے میرے رب چونکہ تو نے مجھے گمراہ کر ہی دیا ہے) باءؔ قسم کیلئے ہے اور ماؔ مصدریہ ہے اور جواب قسم لَاُزَیِّنَنَّ لَھُمْ ہے۔ لَاُزَیِّنَنَّ لَھُمْ (میں ضرور بضرور ان کے لئے آراستہ کرونگا) مطلب یہ ہے مجھے اغواء کرنے کی قسم میں ضرور بضرور ان کے لئے گناہوں کو مزین کروں گا۔ دوسرے مقام پر اس کے قول کا یہ مطلب ہے بما اغویتنی لازینن لھم اور فبعزتک لاغوینھم ] ص : 82[ اس میں تو دونوں برابر ہیں کہ دونوں قسمیں ہیں مگر فرق یہ ہے کہ ایک قسم صفت ذات کے ساتھ ہے اور دوسری صفت فعل کے ساتھ ہے۔ اور فقہاء نے ان دونوں میں فرق کیا ہے۔ علمائے عراق کہتے ہیں صفت ذات کا حلف جیسے قدرت، عظمت، عزت وغیرہ تو قسم ہے۔ اور صفت فعل کے ساتھ حلف جیسے رحمت، ناراضی وغیرہ یہ قسم نہیں۔ الاصح بات یہ ہے کہ قسم کا دارومدار عرف پر ہے جس کو لوگ بطورقسم جانتے ہوں وہ قسم شمار ہوگی اور جس کو لوگ ایسا نہ جانیں وہ قسم نہ ہوگی۔ ردمعتزلہ : یہ آیت خلق افعال میں معتزلہ کے خلاف حجت ہے۔ جبکہ وہ اسکی تاویل تسبب سے کرتے ہیں اور کلام کو ظاہر سے پھیرتے ہیں۔ فِی الْاَرْضِ (زمین میں) اس دنیا میں جو کہ دارالغرور ہے۔ نمبر 2۔ میں تو آدم کے ساتھ حیلہ بازی پر طاقت رکھتا ہوں اور درخت کو کھانے والا عمل میری تزیین سے ہوا۔ جبکہ وہ ابھی آسمان میں تھے۔ تو زمین پر اسکی اولاد کے سلسلہ میں تزیین کی زیادہ قدرت رکھتا ہوں۔ وَلَاُ غْوِ یَنَّھُمْ اَجْمَعِیْنَ (میں ضرور ان تمام کو گمراہ کر ڈالوں گا)
Top