Madarik-ut-Tanzil - Al-Hijr : 2
رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ كَانُوْا مُسْلِمِیْنَ
رُبَمَا : بسا اوقات يَوَدُّ : آرزو کریں گے الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : وہ لوگ جو کافر ہوئے لَوْ كَانُوْا : کاش وہ ہوتے مُسْلِمِيْنَ : مسلمان
کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے کہ اے کاش وہ مسلمان ہوتے۔
قیامت کے دن کفار کی حسرت : 2: رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا (کافر لوگ بار بار تمنا کریں گے) ۔ قراءت : مدنی و عاصم نے تخفیف سے پڑھا۔ باقی نے تشدید کے ساتھ پڑھا ہے۔ ماؔ یہ کافہ ہے کیونکہ رب حرف جر ہے اور مابعد کو مجرور کرتا ہے یہ اسم نکرہ کے ساتھ خاص ہے۔ جب عمل سے روک دیا گیا تو اس کے بعد فعل ماضی اور اسم آسکتا ہے۔ اور جائز ہے۔ یود الذین کفروا کیونکہ انتظار کرنے والے اللہ تعالیٰ کے اطلاع دینے سے ماضی کی طرح قطعیت اور تحقیق رکھتے ہیں۔ گویا اس طرح کہہ دیا گیا۔ ربما ودّ اور ان کا یہ چاہنا موت کے وقت ہوگا۔ نمبر 2۔ قیامت کے دن ہوگا جب کہ اپنی حالت اور مسلمانوں کی حالت کا مشاہدہ کریں گے۔ نمبر 3۔ جب وہ مسلمانوں کو آگ سے نکلتا دیکھیں گے تو وہ تمنا کریں گے کہ کاش وہ بھی مسلمان ہوتے ( تو آج آگ سے نکل جاتے) اسی طرح حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے۔ لَوْ کَانُوْا مُسْلِمِیْنَ (کاش کہ وہ (دنیا) میں مسلمان ہوتے) یہ ان کے چاہنے کی حکایت ہے کہ اس طرح چاہت کریں گے غائب کے صیغہ سے ذکر کیا گیا کیونکہ ان کے متعلق اطلاع دی گئی جیسا کہتے ہیں حلف باللہ لیفعلن اس نے اللہ تعالیٰ کی قسم اٹھائی کہ وہ ضرور ایسا کرے گا۔ اگر اس طرح کہتے ہیں حلف باللہ لافعلن۔ ولوکنا مسلمین تو اچھا ہوتا۔ رُبّ کے لفظ سے تقلیل پیدا کی کیونکہ قیامت کے خوف ناک مناظر تو بہت ہیں۔ اور وہ ان کو تمنا سے مشغول و بےپرواہ کردیں گے۔ جب وہ سکرات عذاب سے افاقہ پائیں گے تو اس وقت مسلمان ہونے کی تمنا کریں گے۔ ایک وضاحت : جنہوں نے یہ کہا کہ رب کثرت کیلئے آتا ہے۔ ان سے بھول ہوگئی ہے کیونکہ کثرت والی بات اس بات کے الٹ ہے۔ جو اہل لغت کے ہاں پائی جاتی ہے کیونکہ رب کی وضع ہی تقلیل کیلئے ہے۔
Top