Tafseer-e-Madani - Nooh : 9
ثُمَّ اِنِّیْۤ اَعْلَنْتُ لَهُمْ وَ اَسْرَرْتُ لَهُمْ اِسْرَارًاۙ
ثُمَّ : پھر اِنِّىْٓ : بیشک میں نے اَعْلَنْتُ لَهُمْ : اعلانیہ (تبلیغ) کی ان کو وَاَسْرَرْتُ لَهُمْ : اور چپکے چپکے کی ان کے لیے اِسْرَارًا : تنہائی میں کرنا
پھر میں نے ان کو اعلانیہ بھی تبلیغ کی اور چپکے چپکے بھی ان کو سمجھایا
11 دعوت حق میں مزید تیزی اور قوت کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ حضرت نوح نے اپنے خالق ومالک کے حضور اپنی عرض والتجاء میں مزید عرض کیا کہ میں نے ان کو ڈنکے کی چوٹ پر پکارا۔ یعنی ان کے ان خرمستیوں کے باوجود میں ان کی خیر خواہی میں لگا ہی رہا اور ان کو حق و ہدایت کی طرف بلاتا ہی رہا، بلکہ جب میں نے ان کو دیکھا کہ انہوں نے حق سے پوری طرح منہ موڑ لیا ہے، اپنے کانوں میں انہوں نے اپنی انگلیاں ٹھوس دیں اور اپنے اوپر کپڑے لپیٹ دیئے تو میں نے اپنی دعوت کے لب و لہجہ کو تیز سے تیز تر اور بلند سے بلند تر کردیا اور حضرت انبیاء کرام کا طریق دعوت یہی رہا ہے کہ ان کی قوم کی بیزاری دعوت حق سے جتنی بڑھتی گئی، اتنا ہی ان کا جوش دعوت اور بڑھتا گیا، اور اس میں تیزی آتی گئی اور وہ جھنجھوڑنے والا اور پرجوش ہوتا گیا اور حق اور اہل حق کی فطرت یہی ہے کہ مزاحمت اور مخالفت کی حدت و شدت حق کی سطوت و قوت کو اور زیادہ نمایاں کرتی اور اس کو بھارتی نکھارتی ہے اور اہل حق کا جذبہ اس سے دینے کی بجائے اور بھرتا ہے، بقول شاعر اسلام کی فطرت میں قدرت نے یہ لچک دی ہے کہ یہ اتنا ابھرے گا جتنا کہ دبا دیں گے۔ اللہ ہمیشہ راہ حق پر مستقیم و گامزن رکھے۔ آمین۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ حضرت نوح نے اپنے رب کے حضور مزید فرمایا کہ پھر میں نے ان کو اعلانیہ بھی تبلیغ کی۔ یعنی ان کے مجمعوں اور اجتماعات کے اندر اجتماعی طور پر بھی حق کی تبلیغ کی۔ سو جہاں ڈنکے کی چوٹ بات کہنے کی ضرورت ہوئی، وہاں میں نے ڈنکے کی چوٹ اور بےدریغ اپنی بات کہی تاکہ ان کو جھنجھوڑا جاسکے اور بہروں تک بھی میری بات پہنچ سکے۔ تاکہ شاید اس طرح میری بات ان کے دلوں میں اتر جائے۔ یہ خواب غفلت سے چونک پڑیں اور میری بات سننے ماننے کو تیار ہو جئایں اور اس کے نتیجے میں یہ اپنے رب کے آگے جھک جائیں اور اس طرح ان کی بگڑی بن جائے اور یہ دائمی خسارے اور ہولناک عذاب سے بچ جائیں۔ سو اس سے پیغمبر کے جذبہ خیر خواہی کا اندازہ کیا جاسکتا ہ۔ علیہم الصلاۃ والسلام حضرت نوح نے اپنے رب کے حضور اور اسی جزبہ خیر خواہی کی بناء پر حضرت نوح نے اپنی قوم کو پوشیدہ طور پر بھی حق کی دعوت دی چناچہ ارشاد فرمایا گیا کہ مزید فرمایا اور میں نے ان کو چپکے چپکے بھی سمجھایا : ۔ کہ شاید اس طرح میری بات ان کے دل و دماغ تک پہنچ جائے یعنی میں نے ان کی ہدایت کے لئے ہر طرح کی اور ہر ممکن کوشش کی اور میں نے ہر طور طریقہ اپنایا، سو جہاں میں نے دیکھا کہ ان کے اندر گھس کر بات کہنے اور کچھ سنانے کا موقع ہے تو وہاں میں نے یہی طریقہ آزمایا، تاکہ جن کے اندر زندگی کی کچھ رمق باقی ہے وہ اگر چاہیں تو فیصلے کی گھڑی آنے سے پہلے پہلے اپنے انجام کی فکر کرلیں اور اپنے دائمی خسارے سے بچ جائیں سو اس سے ایک طرف تو حضرت نوح کی رحمت ورافت اور صدق و اخلاص کا کمال بھی واضح ہوجاتا ہے اور دوسری طرف اس ہٹ دھرم اور بدبخت قوم کی ہٹ دھرمی اور بدبختی و محرومی کا حال بھی عیاں اور آشکار ہوجاتا ہے۔ سو ایسے ہی لوگ آخر کار اپنے اس اس آخری اور ہولناک انجام کو پہنچ کر رہتے ہیں جس کا حق دار انہوں نے اپنے آپ کو بنایا ہوتا ہے اور جس کی تلافی وتدارک کی پھر کوئی صورت ممکن نہیں رہتی۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ ہمیشہ اپنی پناہ میں رکھے اور ہر قسم کے شرور رفتن سے ہمیشہ اور ہر اعتبار سے محفوظ رکھے۔ امین ثم آمین
Top