Tafseer-e-Madani - Nooh : 6
فَلَمْ یَزِدْهُمْ دُعَآءِیْۤ اِلَّا فِرَارًا
فَلَمْ يَزِدْهُمْ : تو نہ زیادہ کیا ان کو دُعَآءِيْٓ : میری پکارنے اِلَّا فِرَارًا : مگر فرار میں
مگر میری اس دعوت (و پکار) سے وہ اور بھی (بدکتے اور) بھاگتے گئے (راہ حق و صواب سے)
8 ۔ قوم نوح کے شدت اعراض و انکار کا ذکر وبیان : سو حضرت نوح (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ اے میرے میں نے تو ان کو دن رات حق کی طرف بلایا اور پکارا، مگر میری دعوت و پکار سے یہ لوگ اور بھی بدکتے اور بھاگتے گئے، اپنے اس بغض وعناد اور نفرت و استکبار کی بناء پر جو یہ لوگ حق اور اہل حق کے خلاف اپنے باطن میں رکھتے ہیں اور جس سے ان کے سینوں کی بھٹیاں ہمیشہ سلگتی اور بھڑکتی رہتی ہیں، اور یہی خاصہ اور نتیجہ ہوتا ہے حق اور اہل حق کے خلاف بغض وعناد کا، کہ اس سے ایک طرف تو انسان حق سے اور دور اور محروم ہوتا جاتا ہے اور دوسری طرف اس کے باطن میں حق اور اہل حق کے خلاف بغض وعناد کی ایک ایسی غیر مرئی آغ جلنے بھڑکنے لگتی ہے، جس سے وہ ایک فوری و نقد اور دردناک عذاب میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ بہرکیف حضرت نوح علی السلام نے اپنے رب کے حضور عرض کیا کہ میرے رب میں نے ان کو شب و روز دعوت دی، مگر اس کا ان پر کوئی اثر نہ ہوا، بلکہ یہ اس سے اور بھی بدکتے بھاگتے اور راہ حق و ہدایت سے دور ہوتے گئے، سو حق اور اہل حق سے بغض وعناد اور نفرت و ہٹ دھرمی محرومیوں کی محرومی اور ہلاکتوں کی ہلاکت ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ ان لوگوں کے پاس چونکہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی باتوں کا کوئی جواب تھا نہیں اور دوسری طرف پیغام حق کو قبول کرنا اور اپنی زندگی اور اس کی روش کا بدلنا بھی ان کو گوارا نہیں تھا، اس لیے انہوں نے اپنی سلامتی گریز و فرار کی راہ ہی میں سمجھی، تاکہ اس طرح وہ اپنے مجرم ضمیر کو احساس جرم کی اذیت سے بچا سکیں، اور یہی طریقہ ہوتا ہے حق اور حقیقت سے گریز و فرار اختیار کرنے والوں کا جس سے کے نتیجے میں ایسے لوگ اپنی محرومی کے داغ کو اور پکار کرتے جاتے ہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہر حال میں اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے، آمین ثم آمین یا رب العالمین۔
Top