Tafseer-e-Madani - Nooh : 3
اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ اتَّقُوْهُ وَ اَطِیْعُوْنِۙ
اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ : کہ عبادت کرو اللہ کی وَاتَّقُوْهُ : اور ڈرو اس سے وَاَطِيْعُوْنِ : اور اطاعت کرو میری
(میرا پیغام یہ ہے) کہ تم لوگ بندگی کرو (ایک) اللہ کی اسی سے ڈرو اور میرا کہا مانو
2 ۔ عبادت و بندگی صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے : اسی لیے حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم لوگ بندی کرو صرف اللہ کی کہ معبود برحق وہی وحدہ لا شریک ہے، پس تم لوگ اسی کی بندگی کرو سچے دل سے اس پر ایمان لاکر، کہ ایمان کے بغیر کوئی عبادت و بندگی منظور نہیں سو اس کی وحدانیت پر صدق دل سے ایمان لانا، اس کے یہاں نجات اور قبولیت کی شرط اولین شرط ہے، سو یہ انزار نوح کی تفصیل ہے کہ تم لوگ بندگی صرف اللہ ہی کی کر وہ کہ معبود برحق بہرحال وہی وحدہ لا شریک ہے، پس تم لوگ اپنے ان تمام خود ساختہ اور خود تراشیدہ معبودوں کی پوجا پاٹ چھوڑ دو ، جس میں تم اب لگے ہوئے ہو کہ ان کی کوئی حقیقت نہیں، اور ان خود ساختہ اور بنے حقیقت معبودوں کی پوجا و بندگی انسان کی تحقیر و تذلیل اور اس کی ہلاکت و تباہی ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ بہرکیف اس سے یہ اہم اور بنیادی حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ پیغمبر کی دعوت و تبلیغ کی اصل اساس و بنیاد توحید خداوندی کی دعوت ہوتی ہے، کیونکہ پورے دین کا مدارو انحصار عقیدہ توحید ہی پر ہے، اور عقیدہ توحید کے بعد دوسری چیز یہ ہے کہ عبادت و بندگی کی ہر قسم اور اس کی ہر شکل اللہ تعالیٰ ہی کا حق ہے، اسی لیے حضرت نوح (علیہ السلام) نے دعوت توحید کے بعد دوسری بات اپنی قوم سے یہ فرمائی کہ تم لوگ اللہ ہی کی عبادت و بندگی کرو، تاکہ اس طرح تم اس کی گرفت و پکڑ سے بچ سکو، اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ تم میری اطاعت و فرمانبرداری کرو، پس تم پابندی کرو ان حدود وقیود کی جو تمہارے رب نے تمہارے لیے مقرر فرمائی ہیں کہ اس سے تم اس کے غضب سے محفوظ رہو گے کہ تقوی دراصل نام ہی حدود خداوندی کی پابندی و پاسداری کا ہے، سو حضرت حق جل مجدہ کی طرف سے مقرر کردہ حدود وقیود کا التزام اور ان کی پابندی ہی اصل مقصود اور دین متین کی تعلیمات مقدسہ کا خلاصہ اور نچوڑ ہے، اور یہی ذریعہ سرفرازی اور حاصل ہے تقوی و پرہیزگاری کا اور حق تعالیٰ کی عبادت و بندگی اور تقوی پرہیزگاری سے سرفرازی کا طریقہ پیغمبر کی اطاعت و اتباع ہے، اسی لیے حضرت نوح (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا کہ تم لوگ میری اطاعت کرو کہ میری اطاعت و فرمانبرداری دراصل اسی وحدہ لاشریک کی اطاعت و فرمانبرداری ہے، جیسا کہ دوسرے مقام پر اس بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاع اللّٰهَ (النساء 80 پ 5) یعنی جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی، پس تم لوگ صڈق دل سے میرا کہا مانو کہ اس میں خود تمہارا بھلا ہے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، لہذا تم لوگ اپنے مفس لیڈروں کو چھوڑ کر میری اطاعت کرو، کہ یہی ذریعہ و وسیلہ ہے اللہ کی اطاعت و بندگی سے سرفرازی کا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کی اطاعت و بندگی پیغمبر کے واسطے اور ان کی تعلیمات کے بغیر ممکن نہیں۔ وللہ الحمد جل وعلا۔
Top