Tafseer-e-Madani - Nooh : 24
وَ قَدْ اَضَلُّوْا كَثِیْرًا١ۚ۬ وَ لَا تَزِدِ الظّٰلِمِیْنَ اِلَّا ضَلٰلًا
وَقَدْ : اور تحقیق اَضَلُّوْا : انہوں نے بھٹکا دیا كَثِيْرًا : بہت بسوں کو وَلَا : اور نہ تَزِدِ : تو اضافہ کر الظّٰلِمِيْنَ : ظالموں کو اِلَّا ضَلٰلًا : مگر گمراہی میں
انہوں نے بہتوں کو گمراہ کردیا ہے پس اب تو بھی (اے میرے مالک ! ) ان ظالموں کو گمراہی کے سوا اور کسی چیز میں ترقی نہ دے
23 ۔ حضرت نوح کی طرف سے جرم اضلال کے مرتکبوں پر اظہار افسوس : سو حضرت نوح نے اپنے رب کے حضور عرض کیا او حرف تاکید کے ساتھ عرض کیا کہ انہوں نے بہتوں کو گمراہ کردیا ہے۔ یعنی ان بتوں نے کہ یہ اس گمراہی کا سبب بنے۔ سو یہ ایسے ہی جیسا کہ حضرت ابراہیم نے فرمایا تھا رب انھن اضللن کثیرا من الناس، یا اصلوا کی ضمیر فاعل کا مرجع ان کافر و مشرکین کے وہ روؤسا و امراء ہیں جو ان کے بڑے گرد تھے، یعنی ان کے ان بڑے سرداروں نے بہت لوگوں کو گمراہ کیا اور ان کو راہ راست سے محروم کیا، والعیاذ باللہ جل وعلا بہرکیف اضلوا کی ضمیر مرقوع کے مرجع میں یہ دونوں ہی احتمال موجود ہیں، مفسرین کرام میں سے کسی نے ایک کو ذکر کیا ہے اور کسی نے دوسرے ک، (ابن کثیر، جامع البیان، محاسن التاویل، صفوۃ التفاسیر اور مراغی وغیرہ) ۔ بہرکیف حضرت نوح نے جرم اضلال پر اظہار افسوس کیا۔ کیونکہ حضرات انبیاء و رسئل کی قدسی صفت ہستیوں کو سب سے زیادہ افسوس اور قلق و اضطراب اپنی قوموں کی گمراہی اور بےراہ روی ہی پر ہوتا ہے۔ اور جو بدبخت ضلال کے ساتھ اضلال کے بھی مرتکب ہوتے ہیں ان پر ان حضرات کو اور بھی زیادہ دکھ اور افسوس ہوتا ہے کہ ان کا جرم اور بھی زیادہ اور دوہرا اور ڈبل ہوجاتا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم 24 حضرت نوح کے ظالموں کے لئے بد دعاء کا ذکر وبیان : اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی پناہ میں رکھے۔ آمین سو آنجناب نے (علیہ السلام) ۔ اپنے رب کے حضور عرض کیا کہ پس تو بھی اے میرے مالک اب ان کو گمراہی کے سوا اور کسی چیز میں تری نہ دے : تاکہ ان کا پیمانہ جرم پوری طرح لبریز ہوجائے اور یہ اپنے کئے کی پوری سزا پاسکیں اور تاکہ اس طرح ان کی عذاب کی جانب تیز روی اور بڑھ جائے، یہ اپنے آخری انجام کو پہنچ کر رہیں اور ان کے ناپاک وجود اور ان کے تعفن سے یہ زمین جلد از جلد پاک ہوجائے، اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس زمین پر رہنے بسنے کے لئے نہیں پیدا کیا بلکہ اس لئے پیدا کیا ہے کہ یہ حصول سعادت کی جدوجہد کرے، تاکہ اس کے ذریعے بالاخر یہ ابدی سعادت اور حقیقی بادشاہی سے سرفراز ہو سکے، اس لئے اس کو زمین پر باقی رہنے کا حق اسی وقت تک رہتا ہے، جب تک کہ اس کے اندر خیر کی کوئی رمق باقی رہتی ہے، یہ رمق اگر ختم ہوجائے تو پھر اس کا وجود زمین کے لئے لعنت بن جاتا ہے، والعیاذ باللہ اسی لئے حضرت نوح نے اپنی دعوت کے آخری مرحلے میں اپنی قوم کے لئے اپنے رب کے حضور اس طرح کی دعاء فرمائی۔ کیونکہ آنجناب نے صدیوں کی محنت اور دعوت مسلسل سے دیکھ لیا تھا کہ اس قوم میں جتنا جو ہر موجود تھا وہ نکل آیا ہے۔ اب جو باقی رہ گئیا ہے اس میں کوئی خیر نہیں بلکہ وہ غلاظت و نجاست کا ڈھیر ہے جس سے اللہ کی زمین کا پاک ہوجانا ہی بہتر ہے اور ذاتی تجربے کے علاوہ حضت نوح کو ان لوگوں کے بارے میں وحی کے ذریعے بھی اس بارے آگاہ فرما دیا گیا تھا کہ اب ان میں سے کوئی بھی ایمان نہیں لائے گا مگر وہی جو ایمان لا کے اور بس۔ جیسا کہ سورة ہود کی آیت نمبر 36 میں اس کی تصریح فرما دی گئی۔ جیسا کہ آگے حاشیہ نمبر 36 میں آ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے۔
Top