Tafseer-e-Madani - Nooh : 13
مَا لَكُمْ لَا تَرْجُوْنَ لِلّٰهِ وَقَارًاۚ
مَا لَكُمْ : کیا ہے تم کو لَا تَرْجُوْنَ : نہیں تم امید رکھتے لِلّٰهِ : اللہ کے لیے وَقَارًا : کس وقار کی
تمہیں کیا ہوگیا (اے میری قوم کے لوگو ! ) کہ تم لوگ اللہ (پاک سبحانہ و تعالیٰ ) کے لئے توقع نہیں رکھتے کسی (عظمت و) وقار کی
14 حضرت نوح کی اپنی قوم کے ضمیر پر ایک دستک : سو حضرت نوح نے اپنی قوم کو جھنجھوڑتے ہوئے اور ان کے ضمیروں پر دستک دیتے ہوئے ان سے فرمایا کہ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم لوگ اللہ کے لئے کسی وقار کی توقع نہیں رکھتے ؟ کہ نہ سچے دل سے اس پر ایمان لاتے ہو، نہ اس کی معصیت و نافرمانی سے بچتے ہوئ، اور نہ اس کی گرفت اور پکڑے ڈرتے ہو۔ والعیاذ باللہ۔ سو ترجون یہاں پر منتظر اور متوقع رہنے کے معنی میں ہے اور وقار کے معنی عظمت، شان اور جلال کے ہیں، سو حضرت نوح نے ان سے فرمایا کہ یہ کیا بات ہے کہ میں تم لوگوں کو خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے اور اس سے استغفار کی دعوت دیتا ہوں، مگر تم لوگ ہو کہ ٹس سے مس نہیں ہوتے اور سنی ان سنی کردیتے ہو کیا تم لوگ اپنی خرمستیوں اور دلچسپیوں میں یونہی مست و مگن رہو گے، تم سے کبھی پوچھ نہیں ہوگی ؟ سو اگر تم نے ایسا سمجھ رکھا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ تمہاری نگاہوں میں اس کی رفعت و جلال اور عظمت شان موجود نہیں سو اس کا بھگتان تم لوگوں کو بہرحال بھگتنا پڑے گا۔ والعیاذ باللہ العظیم بہرکیف اس سے انسان کی ناشکری کی اس روش کو آشکارا فرمایا گیا ہے کہ اللہ پاک سبحانہ و تعالیٰ جب اس کو اپنی شان کریمی سے طرح طرح کی نعمتوں سے نوازتا ہے اور اس کو اس کی خرمستیوں پر وہ فوراً پکڑتا نہیں تو یہ تنگ ظرف اور ناشکرا انسان اس کی گرفت و پکڑ سے نچنت اور بےفکر ہوجاتا ہے۔ اسی کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا گیا ہے " یا ایھا الانسان ماغرک بریک الکریم " (الانفطار :6) " اے انسان تجھے کس چیز نے دھوکے میں ڈال دیا اپنے رب کریم کے بارے میں ؟ " والعیاذ باللہ العظیم
Top