Tafseer-e-Madani - Nooh : 12
وَّ یُمْدِدْكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِیْنَ وَ یَجْعَلْ لَّكُمْ جَنّٰتٍ وَّ یَجْعَلْ لَّكُمْ اَنْهٰرًاؕ
وَّيُمْدِدْكُمْ : اور مدد کرے گا تمہاری بِاَمْوَالٍ : ساتھ مالوں کے وَّبَنِيْنَ : اور بیٹوں کے وَ : اور يَجْعَلْ لَّكُمْ : بنائے گا تمہارے لیے جَنّٰتٍ : باغات وَّيَجْعَلْ لَّكُمْ : اور بنائے گا تمہارے لیے اَنْهٰرًا : نہریں
وہ تم کو نوازے گا طرح طرح کے مالوں (کی ترقی و) مدد سے اور (ہونہار) بیٹوں سے وہ تمہارے لئے باغات بھی پیدا فرما دے گا اور نہریں بھی جاری کر دے گا
13 توبہ و استغفار ذریعہ برکات و سرفرازی سو حضرت نوح نے مزید فرمایا کہ میں نے ان سے کہا کہ تم لوگ معافی مانگو اپنے رب سے۔ وہ تمہارے لئے دھانے کھول دے گا باران رحمت کے : جس سے تمہاری قحط سالی دور ہوجائے گی اور تمہیں خوش حالی نصیب ہوگی، روایات میں ہے کہ کفر و تکذیب کی بناء پر ان لوگوں پر قحط سالی مسلط کردی گئی تھی، جس سے بارشیں بند ہوگئیں، فصلیں اجڑ گئیں، باغات خشک ہوگئے، پانی سوکھ گئے، مویشیہ لاک ہوگئے، اور عورتیں بانجھ ہوگئیں تو اس پر حضرت نوح نے ان کو یہ ارشاد فرمایا، سو اس سے ایک طرف تو یہ معلوم ہوا کہ برے اعمال کی سزا کسی حد تک اس دنیا میں بھی ملتی ہے، والعیاذ باللہ اور دوسرے یہ کہ توبہ و استغفار سے ایسا عذاب اٹھ جاتا ہے کہ اس سے گناہوں کی لے صاف ہوجاتی ہے، جیسا کہ حضرت حذیفہ ؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ استغفار گناہوں کو مٹا دیتا ہے (الاستغفار ممحاۃ للذنوب) نیز فرمایا کہ اللہ کی اطاعت دنیا و آخرت کو پانے کا ذریعہ ہے (روح، قرطبی وغیرہ) اور یہ مضمون قرآن و سنت کی بہت سی نصوص میں وارد ہے حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رح) نے اپنے مشہور رسالہ جزا الاعمال میں بڑی حد تک ان کو جمع فرما دیا ہے، جزاء اللہ خیراً حضرت عمر ؓ کے بارے میں مروی ہے ایک مرتبہ آپ ؓ صلوۃ استقاء کے لئے باہر نکلے اور صرف استغفار پر اکتفاء فرمایا، لوگوں نے عرض کیا کہ حضرت آپ ؓ نے تو استقاء کی دعا فرمائی ہی نہیں، تو آپ ؓ نے فرمایا کہ میں نے تو آسمان کے ان دروازوں کو لہا دیا جن سے بارش برستی ہے۔ (لقد طلبت المطر بمجادع السماء التیی یستنزل بھا المطر) چناچہ اللہ پاک نے بارش بھی عطا فرما دی ( ابن کثیر، قرطبی، مراغی وغیرہ) اسی بناء پر حضرت امام اعظم ابوحنیفہ نے بھی استغفار کو استقاء کی اصل و بنیاد قرار دیا ہے اور حضرت حسن بصری کے بارے میں مروی ہے کہ ان سے ایک مرتبہ ایک شخص نے قحط سالی کی شکایت کی اور نے مال کی قلت کی شکایت کی ایک اور نے اولاد کی قلت کی شکایت کی، ایک اور نے فصلوں اور باغات کی تباہی کی، تو آپ نے ان میں سے ہر ایک کو استغفار ہی کی تعلیم و تلقی فرمائی، تو اس پر جب حضارین میں سے بعض نے سوال کیا کہ حضرت یہ کیا کہ ان میں سے ہر ایک نے الگ الگ شکایت کی اور آپ نے ان سب کو ایک ہی جواب دیا اور ایک ہی بات ارشاد فرمائی، یہ کیسے ؟ تو آپ نے جواب میں یہی آیت کریمہ تلاوت فرمائی یعنی استغافر میں ان سب مصیبتوں اور پریشانیوں کا حل اور علاج ہے، (قرطبی، ابن کثیر، مراغی، معارف، وغیرہ) سو توبہ و استغفار وباللہ التوفیق۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین
Top