Tafseer-e-Madani - Nooh : 10
فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ غَفَّارًاۙ
فَقُلْتُ : پھر میں نے کہا اسْتَغْفِرُوْا : بخشش مانگو رَبَّكُمْ : اپنے رب سے اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ غَفَّارًا : بخشنے والا ہے
سو میں نے (ان سے) کہا کہ تم لوگ بخشش مانگو اپنے رب سے (اپنے گناہوں کی وہ بخش دے گا کہ) بلاشبہ وہ بڑا ہی بخشنے والا ہے2
12 طلب مغفرت کی تعلیم و تلقین کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ حضرت نوح نے فرمایا کہ میں نے ان سے کہا کہ تم لوگ بخشش مانگو اپنے رب سے : یعنی ایمان لا کر اور سچے دل سے اس کی طرف رجوع ہو کر اور تمہارے گناہ اگرچہ بہت زیادہ اور بہت بڑے ہیں مگر پھر بھی تم اس کی رحمت سے مایوس مت ہوؤ، کہ وہ بڑا ہی بخشنے والا غفار ہے اور اس غفار کی طرف تمہارا اپنا رجوع ہی کافی ہے، تمہارے مزعومہ دیویوں، دیوتاؤں اور تمہارے خود ساختہ معبودوں، سرکاروں اور من گھڑت وسیلوں وا سطوں کی واں کوئی ضرورت نہیں، جیسا کہ تم لوگ اپنے خود ساختہ مشرکانہ فلسفے کی بناء پر کہتے رہتے ہو کہ " ہم ان ھوٹے اور خود ساختہ خداؤں کی پوجا پاٹ اس لئے کرتے ہیں کہ تاکہ یہ ہمیں اللہ تک پہنچا دیں۔ " (الزمر :3) یہ ہمارے واسطے اور وسیلے ہیں، ہماری ان کے آگے اور ان کی ان کے آگے وغیرہ وغیرہ۔ سو حضرت نوح نے اپنی قوم کو نہایت صدق و اخلاق اور دلسوزی و خیر خواہی کے ساتھ استغفار کی تعلیم و تلقین فرمائی کہ تم لوگ صدق دل سے اپنے رب کی طرف رجوع کرو اور اس سے اپنے گناہوں کی مغفرت و بخشش طلب کرو۔ وہ اپنے فضل و کرم سے تمہارے سب گناہوں کو معاف فرما دے گا کہ وہ یقیناً بڑا ہی بخشنے والا ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ اور اتنا بڑا کہ اس کی مغفرت و بخشش کا کوئی کنارہ نہیں اسی لئے حضرت نوح نے ادوات تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ وہ بڑا ہی بخشنے والا ہے۔ سو سچی توبہ پر وہ زندگی بھر کے سب گناہ معاف فرما دیتا ہے، اگرچہ وہ گناہ اتنے ہوں کہ پوری روئے زمین ان سے بھر جائے اور اتنے ہوں کہ ان کے انبار آسمان کی بلندیوں تک پہنچتے ہوں، جیسا کہ حدیث قدسی میں اس کی تصریح وارد ہوئی ہے۔ فسبحان اللہ وبحمدہ و سبحان اللہ العظیم ۔ فاغفرالھم دنوبنا واسرافنا فی امرنا۔ سو حضرت نوح نے اپنی قوم سے ارشاد فرمایا کہ تم لوگ صدق دل سے اس کی طرف رجوع کرو اور براہ راست اس کی طرف رجوع ہو کر اس کی بخشش مانگو اور اپنے خود ساختہ اور من گھڑت وسیلوں اور واسطوں کو چھوڑ دو ۔ سو استغفار اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور عنایتوں سے سرفرازی کا ایک بڑا اہم ذریعہ و وسیلہ ہے۔ چناچہ صحیح حدیث میں اس کے عظیم الشان فوائد وثمرات کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا۔ کہ جس نے استغفار کو لازم پکڑا اللہ تعالیٰ اس کو ہر تنگی سے نکلنے کا راستہ عطا فرمائے گا۔ ہر غم سے اس کو کشائش بخشے گا اور اس کو روزی وہاں سے عطا فرمائے گا جہاں سے اس کو گمان بھی نہیں ہوگا۔ چناچہ ارشاد فرمایا گیا۔ من لزم الاستغفار جعل اللہ لہ من کل صیق مخرجا ومن کل ھم فرجا و رزقہ من حیث لا یحتسب فاستغفر اللہ الذی لا الہ الا ہو الحی القیوم واتوب الیہ بکل حال من الاحوال و فی کل حین من الاحیان فی الحیاۃ یا ذوالجلال والاکرام۔
Top