Tafseer-e-Madani - As-Saff : 4
اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِهٖ صَفًّا كَاَنَّهُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ
اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ تعالیٰ يُحِبُّ الَّذِيْنَ : محبت رکھتا ہے ان لوگوں سے يُقَاتِلُوْنَ فِيْ : جو جنگ کرتے ہیں۔ میں سَبِيْلِهٖ : اس کے راستے (میں) صَفًّا : صف بستہ ہو کر۔ صف بنا کر كَاَنَّهُمْ بُنْيَانٌ : گویا کہ وہ دیوار ہیں۔ عمارت ہیں مَّرْصُوْصٌ : سیسہ پلائی ہوئی
بلاشبہ اللہ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے، جو اس کی راہ میں اس طرح صف باندھ کر لڑتے ہیں کہ گویا وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں
[ 4] اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کی نشاندہی کا ذکر وبیان : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ اللہ کی محبت عمدہ صفات والوں سے ہے خواہ وہ کوئی بھی ہوں اور کہیں بھی ہوں کہ یہاں پر بحث فلاں ابن فلاں کی شخصیت سے نہیں، بلکہ دارومدار عمل و کردار پر ہے اور بس۔ اس لئے اللہ پاک کی محبت ان لوگوں سے ہے جو ایسی اور ایسی عمدہ صفات و خصال اپنے اندر رکھتے ہیں۔ پس اس ارشاد سے اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کی نشاندہی فرما دی گئی ہے۔ پس جس نے اللہ تعالیٰ کا محبوب بننا ہو وہ اپنے اندر یہ صفات حمیدہ پیدا کرے۔ وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی ما یحب ویرید، سبحانہ وتعالیٰ ، اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنا ہی بنائے رکھے۔ آمین ثم آمین [ 5] جہاد فی سبیل اللہ کی عظمت شان کا ذکر وبیان : اس سے واضح فرما دیا گیا کہ جہاد فی سبیل اللہ اللہ تعالیٰ کے یہاں ایک انتہائی محبوب عمل ہے پس اس سے جہاد فی سبیل اللہ کی عظمت شان واضح ہوجاتی ہے۔ چناچہ ارشاد فرمایا گیا کہ بیشک اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے ان لوگوں سے جو لڑتے ہیں اس کی راہ میں صف بستہ،۔ یعنی وہ اس کی رضا و خوشنودی اور اس کے دین کی سربلندی کے لئے لڑتے ہیں، کہ تاکہ اللہ کا دین اور اس کا کلمہ سربلند ہو لتکون کلمہ اللّٰہ ہی العلیا اور تاکہ اس کی رضا و رحمت نصیب ہوجائے اس کے سوا ان کے پیش نظر اور کچھ نہیں ہوتا، نہ دنیاوی شہرت اور مال و دولت اور نہ ہی حکومت و کشور کشائی، وغیرہ س جہاد فی سبیل اللہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک بڑا محبوب و مطلوب عمل اور اس کی رضا و خوشنودی کا برا اہم ذریعہ و وسیلہ ہے، وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید، [ 6] مجاہدین فی سبیل اللہ کی عظمت و قوت کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ جو اللہ کی راہ میں ایسے لڑتے ہیں گویا کہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں اپنی استقامت و ثابت قدمی کے اعتبار سے اور باہمی اتفاق و اتحاد کے لحاظ سے سو اللہ پاک کی محبت ان لوگوں سے نہیں ہوسکتی جو محض زبانی و کلامی ڈینگیں ماریں اور عملی طور پر وہ قربانی کا کوئی حوصلہ اپنے اندر نہ رکھتے ہوں، بلکہ وہ انہی لوگوں سے محبت فرماتا ہے جو میدان جنگ میں دشمن کے مقابلے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہوتے ہیں اور دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان کا مقابلہ کرتے ہیں۔ بینان اصل میں تو عمارت کو کہا جاتا ہے لیکن یہاں اس سے مراد دیوار ہے جو کہ کسی بھی عمارت کا بڑا اہم حصہ ہوتا ہے اور دیوار کی خوبی اور قوت اسی میں ہوتی ہے کہ اس میں ایک اینٹ دوسری اینٹ سے ملی ہوئی اور پوری مضبوطی اور پختگی سے اس میں ٹھکی اور جمی ہوئی ہو۔ اگر دیوار کی ایک اینٹ بھی اپنی جگہ سے کھسک جائے تو پھر پوری عمارت کو اکھاڑ پھینک آسان ہوجاتا ہے۔ سو میدان جنگ میں اگر ایک شخص بھی بھاگ جائے تو اس کے نتیجے میں پوری فوج بھگدڑ کا شکار ہوجاتی ہے اور حوصلہ چھوڑ بیٹھتی ہے اسی لئے " فرار من الزحف " یعنی میدا جنگ سے بھاگنے کو صحیح حدیث میں سبع موبقات [ سات مہلک کبیرہ گناہوں ] میں سے قرار دیا گیا ہے اور سورة انفال میں اس کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ ایسا شخص اللہ کے غضب کے ساتھ لوٹا اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور بڑا ہی برا ٹھکانہ ہے وہ [ الانفال : 16] والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین
Top