Tafseer-e-Madani - As-Saff : 13
وَ اُخْرٰى تُحِبُّوْنَهَا١ؕ نَصْرٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ فَتْحٌ قَرِیْبٌ١ؕ وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ
وَّاُخْرٰى : اور دوسری چیز تُحِبُّوْنَهَا : تم محبت رکھتے ہو اس سے نَصْرٌ مِّنَ اللّٰهِ : مدد اللہ کی طرف سے وَفَتْحٌ : اور فتح قَرِيْبٌ : قریبی وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَ : اور خوش خبری دو مومنو کو
اور ایک اور چیز بھی وہ تمہیں عطا فرمائے گا جو تم لوگ پسند کرتے ہو یعنی اللہ کی طرف سے مدد اور جلد ہی ملنے والی فتح اور خوشخبری سنا دو (دولتِ ) ایمان رکھنے والوں کو
[ 26] دنیاوی کامیابی و غلبہ کی بشارت کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا اور ایک اور چیز کی بشارت بھی جس کو تم لوگ پسند کرتے ہو، یعنی اپنی طبعی افتاد اور فطری اور جبلی تقاضے کی بناء پر، کہ انسان فطری طور پر عجلت پسند اور جلد باز واقع ہوا ہے، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا۔ { خلق الانسان من عجل ساریکم ایتی فلا تستعجلون } [ الانبیائ : 37 پ 17] نیز دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا۔ { ویدع الانسان بالشر دعاءہ بالخیر ط وکان الانسان عجولا۔}[ بنی اسرائیل : 11 پ 15] ہجرت کے بعد سب سے بڑی تمنا جو ہر مسلمان کے دل میں موجزن تھی وہ فتح مکہ کی تمنا تھی، اسی پر اسلام کے اصل دشمنوں کی شکست کا انحصار بھی تھا، اور غلبہ حق کی سب سے بڑی شہادت بھی یہی تھی، اس لئے ہر مسلمان اس کا متمنی اور خواہش مند تھا۔ سو اس ارشاد سے اہل ایمان کو اس خوشخبری سے نوازا گیا کہ آخرت کی فو عظیم سے پہلے تم کو اس خوشخبری سے بھی نوازا جاتا ہے کہ دنیاوی زندگی میں بھی تم کو نصرت خداوندی اور فتح قریب سے نوازا جائے گا، اور ایک اور کامرانی تم کو حال ہونے والی ہے عنقریب ہی تم کو نصیب ہوگی۔ سو ایمان و یقین کی دولت سعادت دارین سے سرفراز کرنے والی دولت ہے اس کے بغیر محرومی ہی محرومی ہے۔ والعیاذ باللّٰہ جل وعلا، بکل حال من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ، وھو الھادی الیٰ سواء السبیل، فعلیہ نتوکل وبہ نستعین، [ 27] نصرت خداوندی اور فتح قریب کی خوشخبری : سو آخرت کی کامیابی سے پہلے ان کو دنیاوی بشارت سے بھی سرفراز کیا یعنی اللہ کی مدد اور جلدی سے ملنے والی ایک عظیم الشان فتح۔ فتح نکرہ ہے، جو اپنی تنکیر و تعیم کے لحاظ سے ہر فتح کا شامل ہے خواہ وہ کسی بھی معرکے کی فتح ہو، اور کسی بھی شکل میں ہو کہ فتح کی تنکیر و تعمیم سب کو شامل اور عام ہے اور آخرت کے مقابلے میں یہ سب ہی فتوحات قریب ہیں اسی لئے حضرات ابن عباس ؓ سے اس سے روم وفارس کی فتوحات مراد لی ہیں جبکہ دوسرے بعض حضرات کے نزدیک اس سے مراد خیبر اور پھر مکہ ہی ہے اور یہی ظاہر ہے۔[ مراغی، مدارک، محاسن، اور معارف وغیرہ ] بہرکیف اس فتح کا اصل اور سب سے اہم مصداق فتح مکہ ہی ہے، جیسا کہ ابھی اوپر کے حاشیے میں بھی گزرا۔ سو اس سے کئی اہم بنیادی امور واضح ہوجاتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ آخرت کی اس عظیم الشان اور بےمثال تجارت کو اپنا اصل اور حقیقی نصب العین بنانے والوں کے لئے اس دنیا میں بھی محرومی نہیں، بلکہ یہاں بھی ان کی طرح طرح کی نوازشوں سے سرفراز فرمایا جاتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ دنیاوی فتح و نصرت اگرچہ بڑی چیز ہے لیکن اصل اور حقیقی کامیابی آخرت کی کامیابی ہے اس لئے یہاں پر آخرت کو پہلے ذکر فرمایا اور دنیاوی فتح و نصرت کو بعد میں اور تیسری بات یہ کہ دنیاوی فتح و نصرت بھی انسان کو اللہ تعالیٰ ہی کی توفیق و عنایت اور اسی کے فضل و کرم سے ملتی ہے۔ اس لیے اس کو اپنی لیاقت و قابلیت اور اپنے زور وبازو کا نتیجہ سمجھنے کی بجائے اللہ تعالیٰ ہی کا فضل و کرم سمجھ کر اس کا شکر ادا کیا جائے۔ وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی ما یحب ویرید، بکل حال من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ، [ 28] دولت ایمان سعادت دارین سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ : چناچہ یہاں پر ارشاد فرمایا گیا اور خوشخبری سنا دو ایمان والوں کو۔ یہاں پر " بشر " کا مفعول یعنی " مبشربہ " ذکر نہیں فرمایا گیا یعنی یہ نہیں بتایا گیا کہ کس چیز کی خوشخبری دیجئے سو اس سے اس کے عموم و شمول کا فائدہ ملتا ہے۔ اس لئے یہ ارشاد دارین کی فوزوفلاح اور سعادتوں کو شامل ہے کہ اس عظیم اور بےمثال تجارت کا تقاضا یہی ہے۔ سبحان اللّٰہ ! اتنی بڑی اور کس قدر عظیم الشان دولت ہے۔ ایمان و یقین کی دولت جو کہ انسان کو دارین کی سعادت و سرخروئی کی بےمثل نعمت سے مشرف و سرفراز کرتی ہے۔ فالحمد للّٰہ الذی شرفنا بنعمۃ الایمان والدین فزدنا اللّٰہم منہ وثبتنا علیہ بہ۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ ایمان والوں کو خوشخبری سنا دو جس میں ہر خیر کی خوشخبری آجاتی ہے لیک اس کا اولین اور سب سے بڑا اہم مصداق فتح مکہ ہے جو اس وقت ہر مسلمان کی دل تڑپ و تمنا اور سب سے بڑی خواہش تھی، جیسا کہ ابھی اوپر کے حاشیے میں بھی گزرا۔ اور اس کے کچھ ہی عرصہ بعد مسلمانوں کو فتح مکہ کی عظیم الشان خوشخبری اور سعادت سے نواز دیا گیا۔ سو دولت ایمان و یقین دارین کی سعادت و سرخروئی اور حقیقی فوزوفلاح سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے۔ جبکہ اس سے محرومی ہر خیر سے محرومی ہے، والعیاذ باللّٰہ العظیم، من کل زیغ و ضلال وسواء وانحراف، بکل حال من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ، وھو العزیز الوھاب۔
Top