Tafseer-e-Madani - Al-An'aam : 97
وَ هُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ النُّجُوْمَ لِتَهْتَدُوْا بِهَا فِیْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ١ؕ قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ
وَهُوَ : اور وہی الَّذِيْ : وہ جس جَعَلَ : بنائے لَكُمُ : تمہارے لیے النُّجُوْمَ : ستارے لِتَهْتَدُوْا : تاکہ تم راستہ معلوم کرو بِهَا : ان سے فِيْ : میں ظُلُمٰتِ : اندھیرے الْبَرِّ : خشکی وَالْبَحْرِ : اور دریا قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰيٰتِ : بیشک ہم نے کھول کر بیان کردی ہیں آیتیں لِقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يَّعْلَمُوْنَ : علم رکھتے ہیں
اور وہ (وحدہ لاشریک) وہی تو ہے جس نے بنایا تمہارے لئے ستاروں کو تاکہ تم لوگ ان کے ذریعے راستہ پاسکو، خشکی اور تری کے اندھیروں میں بیشک ہم نے کھول کر بیان کردیا اپنی نشانیوں کو ان لوگوں کے لئے جو علم رکھتے ہیں،
185 کائنات کی کھلی کتاب میں عظیم الشان درس ہائے عبرت و بصیرت : یعنی تاکہ تم لوگ ان سے دنیا میں اپنی اپنی منازل مقصودہ تک پہنچنے کا راستہ معلوم کرسکو۔ اور انہی سے اپنی حقیقی آخری اور دائمی منزل تک رسائی کا راستہ بھی معلوم کرسکو کہ جس خدائے ذوالجلال نے ہمارے لئے یہ سب کچھ پیدا فرمایا، خالق اور مالک حقیقی وہی اور صرف وہی ہے۔ اور اس طرح تم لوگ خود پکار اٹھو ۔ { رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلا } ۔ " کہ مالک تو نے یہ سب کچھ بےکار نہیں بنایا " اور تم یقین جان لو کہ خود تمہیں اس نے عبث و بےکار نہیں بنایا ۔ { اَ فَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنَاکُمْ عَبَثًا وَّاَنَّکُمْ اِلَیْنَا لا تُرْجَعُوْنَ } ۔ یعنی " کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے تمہیں یونہی بیکار پیدا کیا ہے ؟ اور تم نے لوٹ کر ہمارے پاس نہیں آنا ؟ "۔ یعنی ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کہ تمہیں یونہی بیکار پیدا کردیا گیا ہو اور تمہیں یو نہی چھوڑ دیا جائے کہ اس کی شان اقدس و اَعلیٰ اس سے بہت بلند وبالا ہے کہ وہ کوئی عبث اور بےکار کام کرے ۔ { فَتَعَالَی اللّٰہُ الْمَلِکُ الْحَقُّ } ۔ نیز اس سے تم یہ نتیجہ بھی اخذ کرسکو کہ جس خداوند قدوس نے ہمارے لئے ان ظاہری اور عارضی راستوں کی راہنمائی کے لئے اتنا عظیم الشان اور ایسا حیرت انگیز انتظام فرمایا ہے کس طرح ممکن ہوسکتا ہے کہ وہ ہمارے لئے راہ حق کی راہنمائی کا انتظام نہ فرمائے ؟ اور پھر تمہیں اس کے اس قول حق ترجمان کی صداقتوں اور عظمتوں کا یقین ہوجائے کہ ۔ { اِنَّ عَلَیْنَا لَلْہُدٰی } ۔ کہ " ہمارے وعدئہ کرم کے ذمے اور تقاضائے رحمت کی بناء پر یہ لازم ہے کہ ہم اپنے بندوں کی ہدایت کا سامان کریں " جس کی تکمیل اس نے اپنے انبیاء و رسل اور بالخصوص حضرت امام الانبیاء والمرسلین خاتم الرسل محمد مصطفیٰ ﷺ کے ذریعے فرما دی ۔ جلَّ جَلَالُہٗ وَعَّمَ نَواَلُہٗ ۔ نیز اسی سے تم یہ نتیجہ اور سبق بھی لے سکو کہ یہ چاند سورج اور ستارے ہمارے خادم ہیں نہ کہ مخدوم۔ سو کس قدر اندھے اور اوندھے ہیں وہ لوگ جو اپنے ان خادموں کو مخدوم بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ان کو معبود قرار دیتے ہیں۔ اور ان کی پوجا پاٹ کر کے وہ اپنی تذلیل و تحقیر کا سامان خود کرتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اور اسی سے تم یہ اندازہ بھی کرسکو کہ کس قدر احسان عظیم ہے تم پر تمہاے رب رحیم کا کہ اس نے اس دین حنیف سے تم کو نواز کر اور توحید کا درس عظیم دے کر تمہیں مخلوق پرستی کی ان تمام ذلتوں سے بچا لیا ۔ فَلِلّٰہِ الْحَمْدُ رَبِّ الْعٰلَمِین۔ْ سو کائنات کی اس کھلی کتاب میں تمہارے لیے عظیم الشان درس ہائے عبرت و بصیرت ہیں۔ اگر تم لوگ صحیح طریقے سے غور و فکر سے کام لو ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید - 186 علم سے مراد ؟ اور اس کی عظمت شان : سو ارشاد فرمایا گیا اور حرف تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ بلاشبہ ہم نے کھول کر بیان کردیا اپنی نشانیوں کو ان لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں۔ یعنی وہ حقیقی علم جس سے ان کو حق اور حقیقت کی پہچان ہو سکے اور وہ اپنے مقصد حیات اور انجام کو جان سکیں۔ پس معلوم ہوا کے علم دراصل وہی علم ہے جو انسان کو اس کے مقصد حیات سے آگاہ کرے۔ اس کو اپنے خالق ومالک تک پہنچا سکے اور اسے انجام کار کی اور حقیقی کامیابی سے روشناس و ہمکنار کرسکے ورنہ وہ علم علم نہیں۔ اگرچہ اس کے ثبوت کے لئے کسی نے کتنی ہی ڈگریاں کیوں نہ اٹھا رکھی ہوں اور حق اور حقیقت سے آگہی بخشنے والے علم کی یہ نعمت ایک ایسی عظیم الشان نعمت ہے جو انسان کیلئے دارین کی سعادت و سرخروئی کی راہیں روشن کرتی ہے اور اس سے محرومی دارین کی سعادت و سرخروئی سے محرومی ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ بہرکیف اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ ہم نے حق اور حقیقت کو واضح کرنے والی نشانیوں کو کھول کر بیان کردیا ہے اور ایسی نشانیاں جو عقل اور دل کو مطمئن کرنے والی نشانیاں ہیں لیکن یہ نشانیاں کارآمد اور مفیدان ہی لوگوں کے لئے ہوسکتی ہیں جو علم رکھتے ہیں یا علم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ رہ گئے وہ لوگ جن کے اندر علم کی طلب ہی نہیں تو وہ دنیا بھر کی نشانیاں دیکھنے کے بعد بھی اندھے کے اندھے ہی رہتے ہیں ۔ { وَاِنْ یَّرَوْا کُلَّ آیَۃٍ لَا یُوْمِنُوْا بِہَا } ۔ (الانعام :56) ۔ سو انسان کی صلاح و فلاح اور اس کی صحت و بگاڑ کا اصل تعلق اس کے اپنے قلب و باطن سے ہے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید -
Top