Tafseer-e-Madani - Al-An'aam : 75
وَ كَذٰلِكَ نُرِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ مَلَكُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ لِیَكُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِیْنَ
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح نُرِيْٓ : ہم دکھانے لگے اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم مَلَكُوْتَ : بادشاہی السَّمٰوٰتِ : آسمانوں (جمع) وَالْاَرْضِ : اور زمین وَلِيَكُوْنَ : اور تاکہ ہوجائے وہ مِنَ : سے الْمُوْقِنِيْنَ : یقین کرنے والے
اور اسی طرح دکھاتے رہے ہم ابراہیم کو بادشاہی آسمانوں اور زمین کی (حقیقت کے عین مطابق، تاکہ وہ اس سے حق پر استدلال کرسکیں) اور تاکہ وہ ہوجائے کامل یقین والوں میں سے3
138 کائنات کو دیکھنے کا صحیح اور درست طریقہ : سو کائنات کو دیکھنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس کو دیکھ کر اس کے خالق ومالک اور اس کی معرفت تک رسائی حاصل کی جائے۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ " ہم اسی طرح ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی یہ بادشاہی دکھاتے رہے " تاکہ اس طرح آپ حکمتوں بھری اس کائنات سے اس کے خالق ومالک کی وحدانیت ویکتائی اور اس کی عظمت شان پر استدلال کرسکیں۔ اور اہل شرک و باطل پر حجت قائم کرسکیں۔ نہ کہ ظاہر پرست دنیا داروں کی طرح کہ ان کی نگاہیں اس دنیا کی ظاہری چمک دمک ہی میں رک اور اٹک کر رہ جاتی ہیں۔ وہ اس کی گوناگوں نعمتوں سے طرح طرح سے فائدہ تو اٹھاتے ہیں، مگر وہ اپنے خالق ومالک کی معرفت کے نور سے منور نہیں ہوسکتے۔ اور اس کی عبادت و بندگی کے شرف سے محروم رہتے ہیں۔ اور اس محرومی کے نتیجے میں ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ یا تو وہ اس سے بالکل غافل اور بےفکر ہو کر محض حیوانوں کی زندگی گزارتے ہیں یا پھر اسی کائنات کے مختلف مظاہر میں الجھ کر طرح طرح کے شرک میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اور اس طرح ایسے لوگ اپنی تذلیل و تحقیر کا سامان خود کرتے ہیں۔ سو کوئی چاند سورج اور گنگا جمنا کی پوجا کرتا ہے اور کوئی گائے بیل جیسے کسی بےعقل جانور کی۔ کوئی لکڑی پتھر کے کسی بےجان بت اور من گھڑت مورتی کی۔ اور کوئی کسی ننگ دھڑنگ ملنگ کی۔ اور کوئی اَندام نہانی تک کی پوجا کرتا ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ اور کوئی مٹی گارے کی بنی کسی قبر یا کسی خود ساختہ آستانے کے آگے جھکتا اور سجدہ ریز ہوتا ہے۔ اس کے گرد پھیرے لگاتا، چکر کاٹتا اور اس کے لئے نذرانے پیش کرتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ حضرت ابراہیم (علیہ الصلوۃ والسلام) نے اس سب کے برعکس کائنات کے انہی مختلف مظاہر اور نفع بخش اشیاء سے معبود حقیقی اور ان اشیاء کے خالق ومالک کی قدرت اور وحدانیت پر استدلال کیا۔ اور اہل شرک و باطل پر حجت قائم کردی۔ سو یہ ہے اللہ پاک کی وہ اراءت و توفیقِ حق جس سے حضرت ابراہیم (علیہ الصلوۃ والسلام) کو اس واہب مطلق کی طرف سے بطور خاص نوازا گیا تھا۔ پس اہل شرک و بدعت کا اس آیت کریمہ سے اپنے شرکیہ عقائد پر استدلال کرنا سراسر باطل اور بےبنیاد ہے اور اس پر اسرائیلی روایات کا ردہ لگا کر اور ان کے سہارے دوسری خرافات کی راہ ہموار کرنا اور بھی برا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ بہرکیف حضرت ابراہیم نے جب آسمان و زمین کے نظام میں صحیح طریقے سے غور کیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنی توفیق و عنایت سے آپ پر معرفت و حکمت کے وہ اسرار و رموز کھولے جن سے انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم کے خلاف حجت قائم کی اور عقیدئہ توحید کو ان کے سامنے پوری طرح نکھار کر رکھ دیا اور اس طور پر کہ ان لوگوں کے لیے گریز و فرار کی کوئی راہ ممکن نہیں تھی سوائے عناد و ہٹ دھرمی کے۔ سو کائنات کو صحیح زاویے سے دیکھنا بڑا اہم اور بنیادی مطلب ہے ۔ وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ لِمَا یُحِبُّ وَیُرِیْدُ-
Top