Tafseer-e-Madani - Al-An'aam : 51
وَ اَنْذِرْ بِهِ الَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ اَنْ یُّحْشَرُوْۤا اِلٰى رَبِّهِمْ لَیْسَ لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ وَلِیٌّ وَّ لَا شَفِیْعٌ لَّعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ
وَاَنْذِرْ : اور ڈراویں بِهِ : اس سے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَخَافُوْنَ : خوف رکھتے ہیں اَنْ : کہ يُّحْشَرُوْٓا : کہ وہ جمع کیے جائیں گے اِلٰى : طرف (سامنے) رَبِّهِمْ : اپنا رب لَيْسَ : نہیں لَهُمْ : انکے لیے مِّنْ : کوئی دُوْنِهٖ : اس کے سوا وَلِيٌّ : کوئی حمایتی وَّلَا : اور نہ شَفِيْعٌ : سفارش کرنیوالا لَّعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَّقُوْنَ : بچتے رہیں
اور خبردار کرتے رہو اس (کتاب حق) کے ذریعے ان لوگوں کو جو ڈرتے ہیں اس بات سے کہ ان کو اکٹھا کر کے لایا جائے گا ان کے رب کے حضور اس حال میں کہ اس کے سوا ان کا نہ کوئی حمایتی ہوگا نہ سفارشی، تاکہ یہ بچ جائیں
82 منکرین کے لیے قیامت کے روز نہ کوئی حمایتی ہوگا نہ سفارشی : سو قیامت کے روز منکرین کے لیے اللہ کے اذن کے بغیر نہ کوئی حمایتی ہوگا نہ سفارشی۔ جو بغیر اس کے اذن کے ان کے حق میں کوئی سفارش کرسکے۔ اور ان کو ان کے برے انجام سے بچا سکے۔ سو آخرت کے حساب اور وہاں کے اس یوم عظیم کی بازپرس کا احساس و یقین ہی انسان کی اصلاح کیلئے اصل اساس و بنیاد ہے کہ اس کے بغیر انسان لا ابالی اور لاپروا بن کر رہ جاتا ہے۔ اور وہ حق و ہدایت کے پیغام پر کان دھرنے کو تیار ہی نہیں ہوتا۔ یا کچھ جھوٹے سہاروں اور اپنے ساختہ پرداختہ بےبنیاد مفروضوں کی بنا پر لاپروا اور بےفکر ہوجاتا ہے۔ اس لیے قرآن حکیم جا بجا اور طرح طرح سے سمجھاتا اور بتاتا ہے کہ اس دن کوئی کسی کے کچھ کام نہیں آسکے گا اور معاملہ سب کا سب اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہوگا۔ جیسا کہ فرمایا گیا ۔ { یَوْمَ لَا تَمْلِکُ نَفْسٌ لِّنَفْسٍ شَیْئًا، وَالْاَمْرُ یَوْمَئِذٍ لِّلّٰہِ } ۔ (الانفظار : 19) ۔ 83 تقویٰ و پرہیزگاری ذریعہ فوز و فلاح : سو ارشاد فرمایا گیا کہ لوگوں کو خبردار کرتے رہو اس کتاب حق کے ذریعے تاکہ وہ بچ سکین یعنی تاکہ وہ بچ سکیں اپنے ہولناک انجام اور دوزخ کی دہکتی بھڑکتی اس خوفناک آگ سے۔ سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ تقویٰ و پرہیزگاری ذریعہ فوز و فلاح اور خوف خداوندی دارین کی سعادت و سرخروئی کا کفیل وضامن ہے۔ پس جو بچیں گے کفر و بغاوت کی راہ اور ظلم و معصیت کی روش سے وہ اس کے نتیجہ و انجام میں بچ سکیں گے۔ دوزخ کی اس ہولناک آگ اور خوفناک عذاب سے، جو باغی و سرکش اور ظالم لوگوں کو بھگتنا ہوگا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو اللہ تعالیٰ کا خوف اور اس کی ناراضگی سے بچنے کی فکر ایسا اہم اور بنیادی مقصد ہے جو دارین کی سعادت و سرخروئی کا کفیل وضامن ہے۔ پس جو بھی تقویٰ و طہارت اور خوف و خشیت خداوندی کی اس راہ کو اپنائے گا وہ اس یوم عظیم کی گرفت و پکڑ اور اس کے عذاب الیم سے بچ سکے گا۔ خواہ وہ کوئی بھی ہو اور کہیں کا بھی ہو۔ اور جو تقویٰ و پرہیزگاری کی اس راہ و روش سے دور و نفور اور محروم ہوگا وہ بہرحال محروم اور خائب وخاسر ہوگا ۔ والعیاذ باللہ ۔ اس کو اس کے مزعومہ شرکاء و شفعاء میں سے کوئی بھی اس روز کی گرفت و پکڑ سے نہیں بچا سکے گا۔ اور ان کے سب مفروضے " ہَبْائً ا مَنْثُوْرًا " ہوجائیں گے۔
Top