Tafseer-e-Madani - Al-An'aam : 41
بَلْ اِیَّاهُ تَدْعُوْنَ فَیَكْشِفُ مَا تَدْعُوْنَ اِلَیْهِ اِنْ شَآءَ وَ تَنْسَوْنَ مَا تُشْرِكُوْنَ۠   ۧ
بَلْ : بلکہ اِيَّاهُ : اسی کو تَدْعُوْنَ : تم پکارتے ہو فَيَكْشِفُ : پس کھول دیتا ہے (دور کردیتا ہے) مَا تَدْعُوْنَ : جسے پکارتے ہو اِلَيْهِ : اس کے لیے اِنْ : اگر شَآءَ : وہ چاہے وَتَنْسَوْنَ : اور تم بھول جاتے ہو مَا : جو۔ جس تُشْرِكُوْنَ : تم شریک کرتے ہو
(نہیں) بلکہ ایسے موقع پر تو تم اللہ ہی کو پکارتے ہو، پھر وہ دور فرما دیتا ہے تم سے وہ عذاب جس کے لئے تم اس کو پکارتے ہو اگر وہ چاہے، اور (اس موقع پر) تم بھول جاتے ہو، ان سب کو جن کو تم لوگ اس کا شریک ٹھہراتے ہو،
66 حاجت روا و مشکل کشا سب کا ایک ہی ہے یعنی اللہ وحدہ لاشریک : سو وہی اپنی قدرت اور اپنی رحمت و عنایت سے تمہاری اس مصیبت اور تکلیف کو دور فرما دیتا ہے جس کے لیے تم اس کو پکارتے ہو ایسے مشکل موقع پر اپنی اس فطری توحید کی بنا پر جو اس قادرمطلق نے تمہاری فطرت وجبلت میں ودیعت فرما رکھی ہے۔ پھر اپنی فطرت میں پیوست اس جوہر کو دباکر تم لوگ شرک کی گندگی و نجاست کو آخر کیوں گلے لگاتے ہو ؟ اور اس امر واقع اور حقیقت صادقہ کو آخر تم لوگ مانتے اور تسلیم کیوں نہیں کرتے کہ حاجت روا و مشکل کشا سب کا ایک ہی ہے۔ یعنی وہ اللہ وحدہ لاشریک جو اس ساری کائنات کا خالق ومالک اور اس میں حاکم و متصرف ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ بہرکیف اس سے توحید کی اس انفسی دلیل کی طرف اشارہ فرما دیا گیا ہے جو انسان کی فطرت میں پیوست ہے اور جس کا ذکر قرآن حکیم میں دوسرے مختلف مقامات پر فرمایا گیا ہے۔ اور اس دلیل کا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ انسان کی اصل فطرت میں چونکہ ایک ہی خدا کی شہادت موجود ہے دوسرے تمام معبودان باطلہ جن کو وہ مانتا اور ان کی خدائی کا دم بھرتا ہے، ان کی کوئی شہادت اس کی فطرت کے کسی زاویے میں موجود نہیں۔ بلکہ وہ سب محض خیالی اور خود ساختہ ہوتے ہیں۔ اس لئے زندگی میں پیش آنے والے ایسے ہر آزمائشی موقع پر وہ ایسے تمام فرضی سہاروں کو بھول جاتا ہے اور صرف اسی خدائے واحد کو پکارتا ہے جو کہ معبود برحق اور سب کا حاجت روا و مشکل کشا ہے اور جس کی شہادت وہ اپنی فطرت میں پاتا ہے۔ قرآن حکیم نے اس حقیقت کو طرح طرح سے واضح فرمایا ہے کہ یہ انسان کے اپنے وجود کے اندر کی شہادت و دلیل ہے۔
Top