Tafseer-e-Madani - Al-An'aam : 40
قُلْ اَرَءَیْتَكُمْ اِنْ اَتٰىكُمْ عَذَابُ اللّٰهِ اَوْ اَتَتْكُمُ السَّاعَةُ اَغَیْرَ اللّٰهِ تَدْعُوْنَ١ۚ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں اَرَءَيْتَكُمْ : بھلا دیکھو اِنْ : اگر اَتٰىكُمْ : تم پر آئے عَذَابُ : عذا اللّٰهِ : اللہ اَوْ : یا اَتَتْكُمُ : آئے تم پر السَّاعَةُ : قیامت اَغَيْرَ اللّٰهِ : کیا اللہ کے سوا تَدْعُوْنَ : تم پکارو گے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو صٰدِقِيْنَ : سچے
(ان سے) کہو کہ بھلا یہ تو بتاؤ کہ اگر آجائے تم لوگوں پر اللہ کا عذاب، یا آپہنچے تم کو (قیامت کی) وہ گھڑی، تو کیا اس وقت تم لوگ اللہ کے سوا کسی اور کو پکارو گے اگر تم سچے ہو ؟1
65 مشرکوں سے ایک فیصلہ کن سوال : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ان سے پوچھو کہ کیا مصیبت کے ایسے موقع پر تم لوگ اللہ کے سوا اور کسی کو پکارتے ہو ؟ بتاؤ اگر تم سچے ہو ؟۔ یعنی اگر تم سچے ہو اپنی اس بات میں کہ تمہارے یہ خود ساختہ معبود تمہارے حاجت روا و مشکل کشا ہیں۔ اور جب سختی کے ایسے مواقع میں تم ان کو نہیں پکارتے اور یہ تمہارے کچھ کام نہیں آسکتے تو پھر تم نے ان کو آخر معبود قرار کیوں دے رکھا ہے ؟ اور تم ان کو پوجتے پکارتے کیوں ہو ؟ افسوس کا مقام ہے آج کا کلمہ گو مشرک ایسے وقت میں بھی غیر اللہ ہی کو پکارتا ہے اور کہتا ہے " بہاء الحق بیڑا دھک "، " خواجہ اجمیری پار لگا دے کشتی میری "، " یا پیر دستگیر " وغیرہ وغیرہ ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ بہرکیف مشرکین سے اس فیصلہ کن سوال کے ذریعے ان کی بولتی بند کردی گئی کہ جب تمہارے یہ خودساختہ معبود اور شرکاء ایسے کسی موقع پر تمہارے کام نہیں آسکتے تو پھر تم نے ان کو اپنا معبود اور شریک آخر بنا کیوں رکھا ہے ؟ اور ان کو تم لوگ اپنا حاجت روا و مشکل کشا آخر مانتے کیوں ہو ؟ سو اس ارشاد کے ذریعے انسانی فطرت کے ایک خاص پہلو سے توحید خداوندی کی ایک ناقابل تردید انفسی دلیل کو پیش فرما دیا گیا کہ فرض کرو اگر تم پر وہی عذاب اللہ کی طرف سے آجائے جس کا تم اس سے مطالبہ کرتے ہو یا قیامت کی وہی گھڑی اچانک تم پر آدھمکے جس سے تم لوگوں کو خبردار کیا جا رہا ہے تو کون ہے جو تمہاری کوئی مدد کرسکے یا جس کو تم لوگ اپنی مدد کے لئے پکار سکو ؟ اور ظاہر ہے کہ ایسا کوئی بھی نہیں تو پھر تم لوگ آخر شرک کیوں کرتے ہو ؟۔
Top