Tafseer-e-Madani - Al-An'aam : 39
وَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا صُمٌّ وَّ بُكْمٌ فِی الظُّلُمٰتِ١ؕ مَنْ یَّشَاِ اللّٰهُ یُضْلِلْهُ١ؕ وَ مَنْ یَّشَاْ یَجْعَلْهُ عَلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ
وَ : اور الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو کہ كَذَّبُوْا : انہوں نے جھٹلایا بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیات صُمٌّ : بہرے وَّبُكْمٌ : اور گونگے فِي : میں الظُّلُمٰتِ : اندھیرے مَنْ : جو۔ جس يَّشَاِ : چاہے اللّٰهُ : اللہ يُضْلِلْهُ : اسے گمراہ کردے وَمَنْ يَّشَاْ : اور جسے چاہے يَجْعَلْهُ : اسے کردے (چلادے) عَلٰي : پر صِرَاطٍ : راستہ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھا
اور جنہوں نے جھٹلایا ہماری آیتوں کو وہ بہرے اور گونگے ہیں، طرح طرح کی تاریکیوں میں (ڈوبے پڑے) ہیں، اللہ جسے چاہے گمراہ کر دے اور جسے چاہے ڈال دے سیدھے راستے پر،
62 اللہ کی آیتوں کی تکذیب کا انجام بڑا ہی ہولناک۔ والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ جن لوگوں نے جھٹلایا ہماری آیتوں کو وہ بہرے اور گونگے ہیں طرح طرح کی تاریکیوں میں پڑے ہیں۔ سو اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اللہ پاک کی آیتوں کو جھٹلانا انسان کو کس ھاویے میں گرا دیتا ہے اور اس کو کس قدر مہیب انجام سے دو چار کردیتا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اور ظاہر ہے کہ اس کے بعد انسان کو نہ اپنی منزل کا پتہ نہ منزل تک پہنچنے والی راہ سے آگاہی۔ نہ اس کو اپنے مقصد حیات کے بارے میں کوئی علم و آگاہی۔ محض بطن و فرج کی شہوات کی تعمیل کیلئے جینے لگتا ہے اور اس طرح ایک حیوان محض بن کر رہ جاتا ہے۔ بلکہ اس سے بھی کہیں نیچے گر کر اسفل السافلین تک جا پہنچتا ہے۔ اور اس طرح وہ ہولناک اور دبیز اندھیروں میں ڈوب کر رہ جاتا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ جو لوگ ہماری آیتوں کو جھٹلاتے ہیں ان کی مثال ایسے گونگے اور بہرے لوگوں کی ہے جو طرح طرح کے اندھیروں کے اندر ڈوبے پڑے ہوں کہ ایسے لوگ نہ کسی کی سن سکتے ہیں اور نہ کسی کو پکار سکتے ہیں۔ نہ کسی پکارنے والے کی بات کا جواب دے سکتے ہیں نہ کسی کے کسی اشارے کو دیکھ اور سمجھ سکتے ہیں اور نہ کسی نشانی سے راہنمائی حاصل کرسکتے ہیں۔ تو پھر ایسے اندھے بہرے لوگوں کا آخر کیا علاج ہوسکتا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے تو ان کو قوائے علم و ادراک کی عظیم الشان سے نعمتوں سے نوازا تھا مگر انہوں نے اپنے عناد و ہٹ دھرمی سے خود ان کو ضائع کردیا اور اندھے بہرے بن گئے اور نور حق و ہدایت سے منہ موڑ کر ہولناک تباہی میں گرگئے ۔ والعیاذ باللہ - 63 اللہ کے گمراہ کردینے کا مطلب ؟ : سو اللہ جس کو چاہے کو گمراہ کر دے۔ یعنی ایسا شخص اپنی بدنیتی، بدباطنی اور بد اطواری کی بنا پر خود گمراہی کے گڑھے میں جا گرتا ہے کہ اللہ پاک کا قانون و ضابطہ یہی ہے جیسا کہ فرمایا گیا ۔ { نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی } ۔ " وہ اپنے ارادے سے جدھر پھرتا ہے ہم اس کو ادھر ہی پھیر دیتے ہیں " ورنہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی ہدایت چاہتا ہو اور اللہ تعالیٰ اس کے برعکس اس کو از خود یونہی ہدایت سے محروم کرکے گمراہی کے گڑھے میں ڈال دے ۔ والعیاذ باللہ ۔ بلکہ اس نے تو اپنے بندوں کو نور ہدایت سے نوازنے کے لئے طرح طرح سے انتظام فرمایا ہے۔ سو ایک طرف تو اس نے اس کائنات میں قسما قسم کی ایسی نشانیاں پھیلا دیں جو ہدایت کے لئے راہنمائی کرتی ہیں۔ انسان کو فطرت وو جدان کی ہدایت کے بعد عقل و شعور کے جوہر سے نوازا اور پھر اپنے انبیاء و رسل بھیجے اور اپنی کتابیں نازل فرمائیں ۔ جَلَّ جَلالُہٗ وَعَمَّ نَوَالُہٗ ۔ سو وہ واہب مطلق گمراہ نہیں کرتا بلکہ نور حق و ہدایت سے نوازتا ہے۔ مگر جب کوئی اس سے منہ موڑ کر گمراہی کو اپناتا ہے تو وہ اس کو ادھر ہی چلتا کردیتا ہے جس سے وہ دولت حق و ہدایت سے محروم ہوجاتا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو انسان کے بناؤ بگاڑ کا اصل تعلق اس کے اپنے قلب وباطن سے ہے۔ 64 صراط مستقیم سے سرفرازی اور اس کے نتائج وثمرات : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ جس کو چاہتا ہے ڈال دیتا ہے سیدھی راہ پر۔ یعنی ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ اس سیدھی راہ سے نوازتا ہے جس پر چل کر وہ دارین کی سعادتوں سے بہرہ ور ہوتا ہے۔ سو صراط مستقیم اور سیدھی راہ سے سرفرازی اللہ پاک کی عظیم الشان نعمت و عنایت ہے جس سے وہ انسان کو اس کی طلب صادق اور نیک نیتی کی بنا پر نوازتا ہے۔ اور یہ راستہ حضرات انبیائے کرام، صلحائے عظام اور ان کے سچے پیروکاروں کا راستہ ہے۔ اور ایسے حضرات کی دو بنیادی صفات ہوتی ہیں۔ ایمان اور تقویٰ ۔ جو ایمان وتقویٰ کی دولت سے سرفراز ہوتا ہے وہی اللہ تعالیٰ کا ولی اور دوست کہلاتا ہے۔ سو قرآن حکیم کے ارشادات کی روشنی میں ولی ہر وہ شخص ہوتا ہے جو ایمان اور تقویٰ کی دولت اپنے پاس رکھتا ہو، خواہ وہ کوئی بھی ہو اور کہیں کا بھی ہو۔ ارشاد ربانی ہے ۔ { اَلَّذِیْنَ اٰمَنُواْ وَکَانُواْ یَتَّقُوْنَ } ۔ (یونس : 63) " اللہ کے ولی وہ لوگ ہوتے ہیں جو ایمان رکھتے ہوں اور تقویٰ سے مشرف ہوں "۔ نیز فرمایا ۔ { اِنْ اَوْلِیَائُہُ اِلّا الْمُتََّقُوْنَ } ۔ (الانفال : 34) " اس کے ولی تو صرف وہی لوگ ہوتے ہیں جو متقی ہوں "۔ نیز فرمایا ۔ { اَللّٰہُ وَلِیّْ الَّذِیْنَ امَنُوْا } ۔ (البقرۃ : 257) " اللہ دوست ہے ان لوگوں کا جو ایمان رکھتے ہیں "۔ سو ایمان اساس و بنیاد ہے ولایت کی۔ اور پھر تقویٰ و پرہیزگاری۔ ان میں جتنا بھی کوئی ترقی کرتا جائے گا اتنا ہی وہ ولایت و بزرگی میں آگے بڑھتا جائے گا۔ خواہ وہ کوئی بھی ہو اور کہیں کا بھی ہو ۔ وبِاللّٰہِ التَّوْفِیْق ۔ بہرکیف اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ جو لوگ راہ حق و صواب کے طالب اور متلاشی ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو اس سے سرفراز فرما دیتا ہے۔ کہ اس کی شان ہی نوازنا اور سرفراز فرمانا ہے ۔ سبحانہ وتعالیٰ -
Top