Tafseer-e-Madani - Al-An'aam : 38
وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا طٰٓئِرٍ یَّطِیْرُ بِجَنَاحَیْهِ اِلَّاۤ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ١ؕ مَا فَرَّطْنَا فِی الْكِتٰبِ مِنْ شَیْءٍ ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمْ یُحْشَرُوْنَ
وَمَا : اور نہیں مِنْ : کوئی دَآبَّةٍ : چلنے والا فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَ : اور لَا : نہ طٰٓئِرٍ : پرندہ يَّطِيْرُ : اڑتا ہے بِجَنَاحَيْهِ : اپنے دو پروں سے اِلَّآ : مگر اُمَمٌ : امتیں (جماعتیں اَمْثَالُكُمْ : تمہاری طرح مَا فَرَّطْنَا : نہیں چھوڑی ہم نے فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں مِنْ : کوئی شَيْءٍ : چیز ثُمَّ : پھر اِلٰى : طرف رَبِّهِمْ : اپنا رب يُحْشَرُوْنَ : جمع کیے جائیں گے
اور نہیں ہے کوئی جانور جو چلتا ہو اس زمین میں، اور نہ کوئی پرندہ جو اڑتا ہو اپنے پروں کے ساتھ (ان فضاؤں میں) مگر یہ سب مختلف جماعتیں ہیں تم ہی جیسی ہم نے کوئی کسر نہیں چھوری نوشتہء تقدیر میں، پھر ان سب کو بہر حال اپنے رب ہی کے حضور آنا ہے اکٹھا ہو کر،
59 پرندوں اور چرندوں کی مختلف انواع بھی انسانوں کی طرح ہیں : مخلوق ہونے میں۔ خدا تعالیٰ کی محتاج و مرزوق ہونے میں۔ اور دوسری بہت سی صفات اور خصوصیات میں۔ جیسے ان کا پیدا ہونا، پلنا بڑھنا، چلنا پھرنا، کھانا پینا، سونا جاگنا، پھلنا پھولنا اور توالد و تناسل وغیرہ وغیرہ۔ (التحریر لابن عاشور وغیرہ) ۔ سو اہل بدعت کے بعض تحریف پسندوں کا یہ کہنا کہ " اس سے معلوم ہوا کہ ہم حضور کو اپنی مثل نہیں کہہ سکتے، کیونکہ رب نے جانوروں کو یہاں ہماری مثل فرمایا ہے، مگر پھر بھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ جانور ہماری طرح ہیں، تو ہم حضور کی طرح کیسے ہوگئے "۔ سو ایسا کہنا محض موصوف کی ایک ذہنی اپج، خانہ ساز منطق اور مغالطہ آمیزی یا تجاہل عارفانہ ہے۔ ورنہ جیسا کہ حضرات اہل علم اور مفسرین کرام کا کہنا ہے، یہ تشبیہ و تمثیل بھی عام تشبیہات کی طرح مِنْ کُلِّ الْوُجُوْہِ نہیں بلکہ من بعض الوجوہ ہے۔ جیسا کہ " زَیْدٌ کَالْاَسَدِ " میں تشبیہ صرف اس کی بہادری اور دلیری کی بنا پر ہے۔ اس لئے اس میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ " زید شیر ہے " حالانکہ شیر تو ایک درندہ ہے جبکہ زید میں درندگی کی کوئی خصلت نہیں پائی جاتی۔ اور جب مِنْ بَعْضِ الْوُجْوُہ مماثلت پائے جانے کے باعث رب تعالیٰ نے { اَمْثَالُکُمْ } فرمایا ہے تو اس کے تسلیم کرنے میں کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے ؟ یا اس میں کیا اشکال پیدا ہوسکتا ہے ؟ دراصل انسان جب ایک بےبنیاد بات گھڑ لیتا اور ایک غلط عقیدہ اپنا لیتا ہے تو اس کو ایسے ہی پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ بہرکیف اس ارشاد سے نشانیاں مانگنے والوں کو آفاق کی ان مختلف نشانیوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ تم ایک نشانی مانگتے ہو، حالانکہ تم لوگ اگر ذرا غور وفکر سے کام لو تو تمہیں نظر آئیگا کہ خداوند قدوس کی یہ پوری کائنات طرح طرح کی ان نشانیوں سے بھری پڑی ہے جو طرح طرح سے اس کی وحدانیت ویکتائی کا درس دے رہی ہیں ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید - 60 " الکتاب " سے مراد ؟ اور ایک مغالطے کا جواب : سو یہاں پر " الکتاب " سے مراد بھی واضح ہے اور اہل بدعت کی ایک مغالطہ انگیزی اور تحریف پسندی کا جواب بھی۔ سو " کتاب " سے یہاں پر مراد جیسا کہ ہم نے اپنے ترجمے میں بھی واضح کیا ہے لو حِ محفوظ ہے۔ امام طبری، زمخشری اور صاحب جلالین وغیرہ حضرات نے اسی کو اختیار فرمایا ہے۔ (الطبری، محاسن التاویل، مدارک التنزیل، صفوۃ التفاسیر وغیرہ ) ۔ اور علامہ ابن کثیر نے اس کو قو لِ واحد کے طور پر ذکر فرمایا ہے۔ اس کے سوا دوسرے کسی قول کا انہوں نے ذکر ہی نہیں فرمایا۔ یعنی ان کے نزدیک اس کا مفہوم و مصداق صرف یہی ہے۔ اور یہی ظاہر بھی ہے کہ دوسری مختلف آیات و نصوص کریمہ سے بھی اسی کی تائید و تصدیق ہوتی ہے۔ جیسے سورة ہود کی آیت نمبر 6 میں فرمایا گیا ۔ { کُلٌّ فِیْ کِتَابٍ مُّبِیْنٍ } ۔ جبکہ دوسرا قول کچھ حضرات اہل علم کا اس بارے میں یہ ہے کہ یہاں پر کتاب سے مراد قرآن مجید ہے۔ اور ابوحیان وغیرہ کچھ حضرات نے اسی کو ترجیح دی ہے۔ اور اس صورت میں یہ حضرات اس کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ اس کتاب حکیم میں دین مبین سے متعلق ہر ضرورت کو پورا فرما دیا گیا ہے۔ جیسا کہ اس کی مزید تفصیل آگے آرہی ہے۔ سو اگر اس سے مراد لوح محفوظ ہو۔ جیسا کہ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے اور امام ابن جریر طبری وغیرہ حضرات نے اسی کو ترجیح دی ہے تو اس صورت میں اس سے مراد یہ ہوگی کہ لوح محفوظ میں تمام مقادیر اور ماکان ومایکون سب کچھ ثبت و موجود ہے کہ وہ کنایہ ہے علم الہٰی سے۔ اور ظاہر ہے کہ اس کے احاطہ اور عموم وشمول سے کوئی بھی چیز باہر نہیں ہوسکتی۔ (محاسن وغیرہ) ۔ اور بعض حضرات کے نزدیک اس سے مراد اللہ پاک کا علم کامل و محیط ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اور اس کو جو کتاب کے لفظ سے تعبیر فرمایا گیا ہے تو یہ دراصل کنایہ ہے اس کے محفوظ ہونے سے کہ جس طرح لکھا ہوا محفوظ رہتا ہے بھولتا نہیں اسی طرح اللہ پاک کا علم ہمیشہ کے لئے محفوظ ہوتا ہے، کبھی مٹتا یا محو نہیں ہوتا ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ (تفسیر المراغی وغیرہ) ۔ اور اگر اس سے مراد قرآن مجیدہو، جیسا کہ امام رازی وغیرہ نے اختیار فرمایا ہے، تو اس وقت اس سے مراد وہی امور ہوں گے جن کا تعلق دین اور ہدایت سے ہے۔ کیونکہ قرآن حکیم کا اصل موضوع یہی ہے۔ اسی لئے جملہ مفسرین کرام ایسے موقع پر اس کی تصریح فرماتے ہیں کہ اس سے مراد ضروریات دین اور متعلقات شرع متین ہیں، جس کو یہ حضرات اس طرح کے الفاظ سے بیان کرتے ہیں " مِنْ اُمُوْرِ الدُّنْیَا مِمَّا یُحْتَاجُ اِلَیْہِ فِی الشَّرْعِ اَیْ لِمَا یُحْتَاجُ اِلَیْہِ فِی الشَّرِیْعَۃِ وغیر ذالک۔ نمونے کے لئے اس بارے چند حوالہ جات ملاحظہ ہوں : جلالین : ص 141، ص 224، ص 231، معالم التنزیل : ج 2 ص 28، ج 2 ص 170، ج 2 ص 212، جامع البیان : ج 1 ص 232، بیضاوی : ج 1 ص 450، ابن کثیر : ج 2 ص 191، ج 2 ص 246، البدایہ والنھایۃ لابن کثیر : ج ا ص 285 تفسیر کبیر ج 20 ص 99، خازن ج 4 ص 90، المراغی : ج 7 ص 119 وغیرہ وغیرہ۔ سو جمہور اہل علم اور ائمہ تفسیر کی یہ تصریحات دیکھئے اور پھر دیکھئے کہ اہل بدعت کے بعض تحریف پسندوں کی اس خانہ ساز منطق کی کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ " اس سے حضور کا علم غیب کلی ثابت ہوا۔ کیونکہ سارے علوم ان کتابوں میں اور یہ کتابیں حضور کے علم میں ہیں "۔ موصوف اور ان کے دیگر حواریوں کو اپنی اس خانہ ساز منطق کے دوران ایسے مواقع پر یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ یہ سورة کریمہ تو مکی ہے۔ اور اگر بقول تمہارے اس طرح کی آیات کریمہ سے آنحضرت ﷺ کا علم غیب کلی ثابت ہوگیا اور آپ ﷺ کو ماکانَ وْمَا یَکُوْن کے سب علوم عطا فرما دئے گئے تو پھر مدنی دور میں اترنے والے قرآن حکیم کے بارے میں کیا کہو گے کہ وہ کس لئے نازل ہوا ؟ حالانکہ وہ قرآن پاک کا ایک بڑا حصہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے زیغ وضلال سے ہمیشہ محفوظ رکھے ۔ آمین۔ 61 سب کا رجوع اللہ ہی کی طرف : سو ارشاد فرمایا گیا کہ پھر ان سب کو ان کے رب ہی کی طرف اکٹھا کر کے لایا جائے گا اور وہاں پہنچ کر انہوں نے اپنے زندگی بھر کے کیے کرائے کا صلہ اور بدلہ پانا ہے تاکہ اس طرح عدل و انصاف کے تقاضے اپنی کامل اور آخری شکل میں پورے ہوسکیں۔ سو انسانوں اور حیوانوں سب ہی کو اپنے رب کے حضور حاضر ہونا ہے البتہ سزا و جزا صرف انسانوں ہی کو ہوگی کہ مکلف مخلوق یہی ہے۔ اور عقل و شعور کے امتیاز سے اسی کو نوازا گیا ہے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ بہائم کے حشر سے مراد ان کی موت ہے۔ جیسا کہ حدیث میں وارد ہے کہ " جو مرگیا اس کی قیامت قائم ہوگئی "۔ (تفسیر المراغی وغیرہ) ۔ بہرکیف اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ جہاں تک نشانیوں اور دلائل وبراہین کا تعلق ہے ان سے یہ صحیفہ کائنات بھی مملو و معمور ہے اور صحیفہ قرآن بھی۔ اس بارے کوئی کسر اور کمی باقی نہیں رہ گئی۔ لیکن جو لوگ کسی بات کو سمجھنا اور ماننا ہی نہ چاہیں ان کا کیا علاج ہوسکتا ہے۔ ان کو تو آخر کار ان کے رب کے حضور ہی اکٹھا کر کے لایا جائیگا، جہاں ان کو ان کے کیے کرائے کا پورا پورا صلہ اور بدلہ ملے گا۔ تب ان کی آنکھیں کھلیں گی اور ان کی یاس و حسرت کی کوئی انتہاء نہ رہے گی ۔ والعیاذ باللہ -
Top