Tafseer-e-Madani - Al-An'aam : 165
وَ هُوَ الَّذِیْ جَعَلَكُمْ خَلٰٓئِفَ الْاَرْضِ وَ رَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَبْلُوَكُمْ فِیْ مَاۤ اٰتٰىكُمْ١ؕ اِنَّ رَبَّكَ سَرِیْعُ الْعِقَابِ١ۖ٘ وَ اِنَّهٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠   ۧ
وَهُوَ : اور وہ الَّذِيْ : جس نے جَعَلَكُمْ : تمہیں بنایا خَلٰٓئِفَ : نائب الْاَرْضِ : زمین وَرَفَعَ : اور بلند کیے بَعْضَكُمْ : تم میں سے بعض فَوْقَ : پر۔ اوپر بَعْضٍ : بعض دَرَجٰتٍ : درجے لِّيَبْلُوَكُمْ : تاکہ تمہیں آزمائے فِيْ : میں مَآ اٰتٰىكُمْ : جو اس نے تمہیں دیا اِنَّ : بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب سَرِيْعُ : جلد الْعِقَابِ : سزا دینے والا وَاِنَّهٗ : اور بیشک وہ لَغَفُوْرٌ : یقیناً بخشے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
اور وہ وہی ہے جس نے تمہیں جانشین بنایا اپنی اس زمین کا، اور اس نے تم میں سے بعض کو بعض کے اوپر (دنیا میں) بلند درجہ عطا فرمائے، تاکہ وہ تمہاری آزمائش کرے ان چیزوں میں جو اس نے تمہیں دی ہیں، بیشک تمہارا رب سزا دینے میں بھی بڑا تیز ہے، اور بیشک وہ بڑا بخشنے والا، نہایت ہی مہربان ہے۔
349{ خلائف الارض } کا معنیٰ و مفہوم اور اس کی عظمت شان ؟ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اسی نے تم لوگوں کو اس زمین میں خلیفہ بنایا کہ تم اللہ کے خلیفہ کے طور پر اس کی پیدا کردہ اس زمین پر عمل و تصرف کرتے ہو۔ نیز اس نے تم کو خلیفہ و جانشین بنایا ان قوموں کا جو تم سے پہلے اس دنیا میں گزر چکی ہیں۔ نیز تم خلیفہ و جانشین ہو اپنے باپ دادا اور اپنے بڑوں کے۔ اور جس طرح ان کے ترکہ و میراث کے وارث آج تم بنے ہوئے ہو، اسی طرح وقت آنے پر یہ سب کچھ تم سے دوسروں کو منتقل ہوجائے گا۔ سو آج جب کہ یہ سب کچھ تمہارے پاس ہے اس کو راہ حق میں اور مرضی حق کے مطابق صرف و خرچ کر کے اپنی آخرت بنا لو قبل اس سے کہ یہ تمہارے ہاتھ سے نکل جائے اور تم کو خالی ہاتھ کوچ کرنا پڑے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا { وَاَنْفِقُوْا مِمَّا جَعَلَکُمْ مُّسْتَخْلَفِیْنَ فِیْہِ } الایۃ (الحدید : 7) ۔ سو انسان اس دنیا میں نہ مختار کل ہے کہ اپنی آزادانہ روش اور اپنی مرضی سے جو چاہے کرے بلکہ وہ خاص حدود وقیود کا پابند ہے اور انہی کے اندر رہ کر وہ اپنی آزادی برت سکتا ہے۔ اور نہ ہی وہ انسان مطلق العنان اور یہاں پر ہمیشہ رہنے والا ہے بلکہ وہ حدود کا پابند ہے اور ایک مختصر و محدود اور گنی چنی مدت تک یہاں رہنے والا ہے۔ اور اس کے بعد اس کو خود ہی یہاں سے کوچ کرنا ہوگا اور یوم حساب میں اپنے رب کے یہاں حاضر ہو کر اپنے زندگی بھر کے کیے کرائے کا جواب دینا اور اس کا پھل پانا ہوگا۔ سو { جَعَلَکُمَْ خَلَائِفَ الْاَرْض } کے اس مختصر اور چھوٹے سے جملے میں یہ سب ہی عظیم الشان اور جلیل القدر معانی و مطالب پنہاں ہیں۔ آج کا غفلت کا مارا اور مادی فوائد و منافع کی ریل پیل اور چکاچوند میں پھنسا جکڑا انسان اگر اسی ایک جملے میں سنجیدگی سے غور کرلے تو اس کی بگڑی بن سکتی ہے۔ اس کی روش بدل سکتی ہے۔ اور اس کی اصلاح ہوسکتی ہے اور وہ خود سری اور بےراہ روی سے بچ کر حق و ہدایت کی اس شاہراہ پر آسکتا ہے جو اس کو دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز اور بہرہ ور کرنے والی واحد راہ ہے ۔ وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقِ لِمَا یُحِبُّ وَ یُرِیْدُ- 350 فرق مراتب ذریعہ ابتلاء و آزمائش : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اس نے تم میں سے بعض کو بعض پر بلند درجات عطا فرمائے تاکہ وہ تم لوگوں کی آزمائش فرمائے ان چیزوں میں جو اس نے تم کو دی ہیں تاکہ اس طرح یہ امر واضح ہوجائے کہ کون ان کو اس کی بخشش وعطاء سمجھ کر ان کا حق ادا کرتا ہے اور کون ان کی بنا پر مست ہو کر تکبر و انحراف سے کام لیتا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو انسانوں کے درمیان درجات و مراتب کا فرق ایک طبعی اور فطری امر ہے جو حضرت خالق نے اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے ان کے درمیان رکھا ہے۔ جس کے ساتھ مخلوق کے طرح طرح کے فوائد و منافع وابستہ ہیں۔ اور اسی فرق مراتب اور تفاوت درجات سے انکے باہمی کام چلتے اور وہ اپنی دنیاوی زندگی میں ایک دوسرے سے کام لیتے اور فائدہ اٹھاتے ہیں، جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا گیا { وَرَفَعْنَا بَعْضَہُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِیَتَّخِدَ بَعْضُہُمْ بَّعْضًا سُخْرِیًّا } الآیۃ (الزخرف : 32) ۔ یعنی " ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر درجات کے لحاظ سے فوقیت اور بڑائی بخشی تاکہ یہ ایک دوسرے سے کام لے سکیں "۔ 351 عقاب خداوندی کی تذکیر و یاددہانی : سو ارشاد فرمایا گیا اور حرف تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ بلاشبہ تمہارا رب سزا دینے میں بڑا ہی تیز ہے نافرمانوں اور ہٹ دھرموں کو۔ تاکہ وہ اپنے کئے کا پورا پورا بدلہ پائیں اور اس طرح عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہوں۔ اور اس کو حساب لینے کیلئے آلات حساب و کتاب کی ضرورت نہیں۔ وہ ایسے تمام تصورات اور اس طرح کی سب ضروریات و حاجات سے پاک ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ سو کوئی اس یوم حساب کو کہیں دور نہ سمجھے۔ وہ بڑا ہی قریب ہے کہ انسان کی موت کے بعد ہی وہ جہاں اور اس کے تقاضے شروع ہوجاتے ہیں اور کسی کو پتہ نہیں کہ اس کی موت کب، کہاں اور کس طرح آئیگی۔ اس لئے ہر انسان کو اس کو ہمیشہ قریب ہی سمجھ کر اس کے لئے تیاری کرتے رہنا چاہئے کیونکہ ہر انسان کے حق میں اس کی قیامت اس کی موت ہی ہے جیسا کہ فرمایا گیا " مَنْ مَاتَ فَقَدْ قَامَتْ قِیَامَتُہٗ " یعنی " جو مرگیا اس کی قیامت قائم ہوگئی " ۔ وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقِ لِمَا یُحِبُّ وَیُرِیْدُ وعلی ما یحب ویرید - 352 اللہ تعالیٰ کی بخشش اور مہربانی کی تذکیر و یاددہانی : سو ارشاد فرمایا گیا اور حرف تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ بلاشبہ تمہارا رب بڑا ہی بخشنے والا نہایت ہی مہربان بھی ہے۔ فرمانبرداروں اور اطاعت گزاروں کے لئے۔ پس نہ تو اس کی گرفت و پکڑ سے لاپرواہی برتی جائے اور نہ ہی اسکی رحمت و بخشش سے مایوسی۔ بلکہ خوف ورجاء دونوں کا ہونا ضروری ہے۔ سو وہ ایسا غفور و بخشنہار ہے کہ اس کی مغفرت و بخشش کا کوئی کنارہ نہیں۔ سچی توبہ پر وہ گناہگاروں کے تمام گناہوں کو ایک لحظہ میں معاف فرما دیتا ہے۔ اور وہ رحیم اور مہربان بھی ایسا ہے کہ اس کی رحمت و مہربانی کا بھی کوئی کنارہ نہیں ہے۔ پس بندے کا کام یہ ہے کہ وہ ہمیشہ اور ہر حال میں اس کی مغفرت و بخشش کی بھی امید رکھے اور اس کی رحمت و مہربانی کی بھی لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ وہ اس کے عذاب اور اس کی گرفت و پکڑ سے ہمیشہ لرزاں وترساں بھی رہے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید ۔ فَاغْفِرْلِیْ وَارْحَمْنِیْ یا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ ۔ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ- وانا عبدک العاصی، ولرحمتک الراجی، محمد اسحاق خان عفا اللہ عنہ وعافاہ ۔ تَمّ تحریرہ فی 41 ربیع الاول 1410، مطابق 21 اکتوبر 1989 ء یوم السبت والساعۃ العاشرۃ والنصف صبا جا بمنزلی الکاین فی منطقۃ ام ہریرہ بدبی، الامارات العربیۃ المتحدۃٗ نظر ثانی 16 شعبان 1417، مطابق 6 جنوری 1997، بروز اتوار بوقت اڑھائی بجے بعد از دوپہر، بمکان خود سطوہ دبی، متحدہ عرب امارات والحمد للہ رب العالمین۔
Top