Tafseer-e-Madani - Al-An'aam : 129
وَ كَذٰلِكَ نُوَلِّیْ بَعْضَ الظّٰلِمِیْنَ بَعْضًۢا بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ۠   ۧ
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح نُوَلِّيْ : ہم مسلط کردیتے ہیں بَعْضَ : بعض الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع) بَعْضًۢا : بعض پر بِمَا : اس کے سبب كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ : جو وہ کرتے تھے (ان کے اعمال)
اور اسی طرح ہم مسلط کردیتے ہیں بعض ظالموں کو بعض پر بوجہ ان کی اس کمائی کے جو وہ کرتے ہیں،
254 دفع ظلم کے لیے قانون و دستور خداوندی کا ذکر : سو اس سے ظالموں کے ظالموں پر مسلط کرنے کے قانون و دستور خداوندی کا ذکر وبیان فرمایا گیا ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ ہم اسی طرح مسلط کردیتے ہیں بعض ظالموں کو بعض پر۔ تاکہ ان کو ان کے مظالم کا کسی حد تک مزہ چکھایا جاسکے اور دنیا کو ان کے مظالم سے رہائی مل سکے۔ اور کافر کا دوست کافر اور مومن کا دوست مومن کہ جنس اپنی جنس ہی کی طرف مائل ہوتی ہے۔ اسی لئے کافر کافر کا دوست ہوتا ہے اور مومن مومن کا، وہ جہاں کہیں بھی ہو۔ اسی طرح ظالم ایک دوسرے کے ساتھ لگتے ہیں۔ یہاں تک کہ سب جاکر دوزخ میں گریں گے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اور جیسا کہ حدیث شریف میں فرمایا گیا ہے کہ جیسے تم خود ہوؤ گے اسی طرح کے تم پر والی اور حکمران بھی مسلط کر دئے جائیں گے " کَمَا تَکُوْنُوْنَ یُوَلّٰیْ عَلَیْکُمْ " (تفسیر القاسمی وغیرہ) ۔ سو جب لوگ برے ہوتے ہیں تو ان پر حاکم بھی برے مسلط کردیئے جاتے ہیں۔ چناچہ ابواللیث سمرقندی اس آیت کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں " نُسَلِّطُ بَعْضَ الظّالِمِیْنَ بَعْضًا فیُہْلکُِہُ اَوْ یُذِلُّہ " یعنی " ہم بعض ظالموں کو بعض پر مسلط کردیتے ہیں پھر وہ اس کو یا ہلاک کردیتا ہے یا ذلت کے گڑھے میں ڈال دیتا ہے " ۔ والعیاذ باللہ ۔ ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کسی قوم سے ناراض ہوتا ہے تو برے اور ظالم لوگوں کو ان پر مسلط کردیتا ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ اور جب وہ ان سے راضی ہوتا ہے تو ان کے معاملات اچھے اور نیک لوگوں کے حوالے کردیتا ہے۔ اور حضرت مالک بن دینار کہتے ہیں " میں نے حکمت کی بعض کتابوں میں پڑھا کہ اللہ پاک ۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ فرماتا ہے کہ " میں بادشاہوں کا بادشاہ ہوں۔ تمام بادشاہوں کے دل میرے ہاتھ میں ہیں۔ پس جن لوگوں نے میری اطاعت و فرمانبرداری کی ان پر میں ان کے بادشاہوں کو رحمت کا ذریعہ بنا دیتا ہوں۔ اور جنہوں نے میری نافرمانی کی ان پر میں ان کو عذاب کا کوڑا بنا دیتا ہوں " ۔ والعیاذ باللہ ۔ اسی لئے امام قرطبی اس آیت کریمہ کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ اس میں ظالموں کیلئے بڑی تنبیہ اور تہدید ہے کہ اگر وہ باز نہ آئے تو ان پر ایسے ہی دوسروں کو مسلط کردیا جائے گا جو ان سے ان کے ظلم کا حساب لیں گے۔ (القرطبی، الروح، ابن کثیر، محاسن التاویل، صفوۃ التفاسیر، جامع البیان اور خازن وغیرہ) ۔ اور ظالم پر دوسروں کو مسلط کرنے کی یہ سنت الہٰی اس کارخانہ ہست و بود میں ہمیشہ کارفرما رہی اور آج تک کار فرما ہے، مگر غفلت کی ماری دنیا ہے کہ پھر بھی آنکھ نہیں کھولتی اور اس سے سبق نہیں لیتی۔ خود ہمارے ملک کی تاریخ میں اس کی کتنی ہی مثالیں گزری ہیں اور اس وقت بھی جبکہ راقم آثم ان سطور کی پروف ریڈنگ کررہا ہے اس کی ایک تازہ مثال سب کے سامنے موجود ہے۔ ہمارے ملک کے ایک حکمران انتخاب (اور اس میں کی گئی دھاندلی) کے ذریعے کرسی اقتدار پر براجمان ہوئے تو فرعون بن گئے۔ ان کا کہنا اور بار بار کہنا تھا کہ میں سب کو مات دیکر بھاری مینڈیٹ کے ذریعے منتخب ہوا ہوں اور اپنی اسی فرعونی ذہینت کی بناء پر انہوں نے اپنے صرف تین سالہ دور حکومت میں وہ وہ ظلم ڈھائے کہ سابقہ ظالموں کے تمام ریکارڈ بیٹ کردیئے۔ دینی مدارس اور انکے طلبہ و اساتذہ اور دیگر علمائے حقانیین کو انہوں نے طرح طرح سے ستایا اور اذیتیں پہنچائیں۔ کتنوں کو داخل زنداں اور پابند سلاسل کیا اور کتنوں کو ظلم وعدوان کے ساتھ شہید کیا گیا اور اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں تو اس ٹولے نے بعض شیطانی سپر طاقتوں کے اشاروں پر اس طرح کھلم کھلا ناچنا شروع کردیا تھا اور اہل حق کیخلاف وہ اس طرح ہرزہ سرائی پر اتر آئے تھے کہ اصحاب فکرو بصیرت کو حیرانگی ہو رہی تھی کہ یہ صاحب آخر اس حد تک کیوں اور کیسے گرگئے ؟ سو قدرت کی طرف سے ان پر عذاب کا ایک ایسا کوڑا برسا کہ یکایک اور بالکل خلاف توقع ایک ایسا انقلاب آیا کہ کسی کی نکسیر تک نہیں پھوٹی اور وہ فرعون صفت حکمران اپنے حواریوں سمیت آج جیل کی کالی کوٹھڑی میں بند اور عدالت کے کٹہرے میں اپنے مظالم کی جوابدہی کیلئے کھڑے ہیں اور اپنے مستقبل سے متعلق فیصلے کے انتظار میں ہیں۔ اور ایسے موڑ پر ہیں کہ جہاں زندگی اور موت کا مرحلہ درپیش ہے۔ اور اب اس کے بعد جبکہ راقم آثم ان سطور کی نئی پروف ریڈنگ کر رہا ہے ان صاحب کو عدالت نے سزائے موت کا حکم سنا دیا ہے اور تقریباً کوئی دو سال کا عرصہ جیل کی کال کوٹھڑی میں موت وحیات کی کشمکش اور انتظار میں گزارنے کے بعد بعض بیرونی ملکوں کی مداخلت اور طرح طرح کی ذلت و رسوائی اٹھانے کے بعد موصوف کو پورے خاندان سمیت ملک بدر کردیا گیا۔ اور اب وہ اپنے ملک سے باہر جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں اور جس ملک میں وہ دندنایا کرتے تھے اور بڑے بڑے دعوے کیا کرتے تھے وہ اس میں رہنے کے حق سے بھی محروم ہوگئے۔ اور ان کے اس بھاری مینڈیٹ کی طرف سے کوئی آواز بھی ان کے حق میں نہیں اٹھی جس کا ان کو بڑا دعویٰ اور گھمنڈ تھا ۔ { اِنَّ فِیْ ذَالِکَ لَعِبْرَۃ } ۔ " بلاشبہ اس میں بڑا سامان عبرت ہے " ۔ { اِنَّ بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِیْدٌ } ۔ " بیشک تمہارے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے " ۔ { اِنَّ اَخْذَہُ اَلِیْمٌ شَدِیْدٌ} ۔ " بیشک اس کی پکڑ بہت دردناک اور بڑی ہی سخت ہے " ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو ہر ظالم کو چاہئے کہ وہ دوسرے ظالموں کے انجام سے درس عبرت لے ورنہ اس ہولناک انجام کے لئے تیار ہوجائے جو دوسرے ظالم اس سے پہلے بھگت چکے ہیں ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہِ العظیم من کل سوء و انحراف و زیغ وضلال -
Top