Tafseer-e-Madani - Al-An'aam : 116
وَ اِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِی الْاَرْضِ یُضِلُّوْكَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ؕ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ اِنْ هُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَ
وَاِنْ : اور اگر تُطِعْ : تو کہا مانے اَكْثَرَ : اکثر مَنْ : جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں يُضِلُّوْكَ : وہ تجھے بھٹکا دیں گے عَنْ : سے سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ اِنْ : نہیں يَّتَّبِعُوْنَ : بیروی کرتے اِلَّا : مگر (صرف) الظَّنَّ : گمان وَاِنْ هُمْ : اور نہیں وہ اِلَّا : مگر يَخْرُصُوْنَ : اٹکل دوڑاتے ہیں
اور اگر تم ان لوگوں کی اکثریت کی بات ماننے لگے جو زمین میں رہتے ہیں تو وہ تمہیں بھٹکا دیں گے اللہ کی راہ سے، یہ لوگ پیروی نہیں کرتے مگر ظن کی اور یہ محض اٹکلیں دوڑاتے ہیں اور بس،2
224 محض عوام کی اکثریت کی بات ماننا باعث گمراہی ۔ والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا کہ اگر تم نے زمین میں رہتے بستے لوگوں کی اکثریت کی بات مانی اور ان کو معیار ٹھہرایا تو یہ لوگ تم کو بھٹکا دیں گے اللہ کی راہ سے کہ یہ خود بھٹکے ہوئے اور بےراہ ہیں۔ معلوم ہوا کہ عوام کی اکثریت کا کسی بات کا ساتھ دینا اس کے حق ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا، جیسا کہ دور حاضر میں جمہوریت کے نوسا ختہ بت کے پجاریوں نے سمجھ رکھا ہے اور جس طرح کہ اہل بدعت کا کہنا ماننا ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو عوام کی تائید یا تردید کو کسی امر کے حق یا باطل ہونے کیلئے معیار نہیں قرار دیا جاسکتا کہ ان کی اکثریت غلط کار گمراہ اور خواہشات کی پیروکار رہی ہے۔ پہلے بھی یہی تھا اور اب بھی یہی ہے۔ پس حق اور سچ وہ ہے جسکو اللہ اور اس کا رسول حق بتائے خواہ دنیا ساری ہی اس کے خلاف کیوں نہ ہو ۔ والعیاذ باللہ ۔ اور اس کے مقابلے میں باطل اور جھوٹ وہ ہے جو اللہ اور اسکے رسول کی تعلیمات کی روشنی میں جھوٹ اور باطل قرار پائے خواہ دنیا ساری ہی اس کی تائید و حمایت کیوں نہ کرتی ہو۔ سو اسی لئے ارشاد فرمایا گیا کہ اگر تم زمین میں رہنے بسنے والی اکثریت کی بات ماننے لگے تو یہ تم کو اللہ کی راہ سے بہکا اور بھٹکا دے گی۔ پس اطاعت و فرمانبرداری اکثریت کی نہیں بلکہ اس حق اور ہدایت کی کرنی ہے جو تم کو اپنے خالق ومالک کی طرف سے ملے ۔ وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقِ لِمَا یُحِبُّ ویُرِیْدُ ۔ بہرکیف اس سے واضح فرما دیا گیا کہ عوام کی اکثریت کی پیروی باعث ہلاکت و تباہی ہے ۔ والعیاذ باللہ - 225 عوام کی اکثریت ظن و گمان کی پیروکار ۔ والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا اور حصر و تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ یہ لوگ پیروی نہیں کرتے مگر ظن و گمان کی۔ اور یہ لوگ محض اٹکلیں دوڑاتے ہیں۔ اور ظن وتخمین راہ حق و صدق میں کچھ کام نہیں آسکتے، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ۔ { وَاِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیئًا } ۔ (النجم : 28) ۔ سو بڑے خسارے اور سخت دھوکے میں ہیں وہ لوگ جنہوں نے ظن وتخمین اور اٹکل پچو قسم کی چیزوں ہی کو اپنے دین و مذہب کی اساس و بنیاد قرار دے رکھا ہے۔ یہاں تک کہ ان کے خدا اور معبود اور ان کی عبادات و پوجا پاٹ کے طور طریقوں تک سب ہی کچھ اسی ظن وتخمین پر مبنی ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اور کتنے ہی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کسی دلیل وبرہان کے بغیر یوں کہہ دیتے ہیں " میرا خیال یہ ہے "، " میں یوں سمجھتا ہوں " " I Think So " وغیرہ وغیرہ ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہِ جَلَّ وَ عَلَا -
Top