Tafseer-e-Madani - Al-An'aam : 114
اَفَغَیْرَ اللّٰهِ اَبْتَغِیْ حَكَمًا وَّ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ اِلَیْكُمُ الْكِتٰبَ مُفَصَّلًا١ؕ وَ الَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ یَعْلَمُوْنَ اَنَّهٗ مُنَزَّلٌ مِّنْ رَّبِّكَ بِالْحَقِّ فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ
اَفَغَيْرَ اللّٰهِ : تو کیا اللہ کے سوا اَبْتَغِيْ : میں ڈھونڈوں حَكَمًا : کوئی منصف وَّهُوَ : اور وہ الَّذِيْٓ : جو۔ جس اَنْزَلَ : نازل کی اِلَيْكُمُ : تمہاری طرف الْكِتٰبَ : کتاب مُفَصَّلًا : مفصل (واضح) وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جنہیں اٰتَيْنٰهُمُ : ہم نے انہیں دی الْكِتٰبَ : کتاب يَعْلَمُوْنَ : وہ جانتے ہیں اَنَّهٗ : کہ یہ مُنَزَّلٌ : اتاری گئی ہے مِّنْ : سے رَّبِّكَ : تمہارا رب بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ فَلَا تَكُوْنَنَّ : سو تم نہ ہونا مِنَ : سے الْمُمْتَرِيْنَ : شک کرنے والے
تو کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور منصف تلاش کروں، حالانکہ وہی ہے جس نے اتار دی تمہاری طرف یہ کتاب مفصل کر کے،3 اور جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی (یعنی یہود ونصاری) وہ یقین کے ساتھ جانتے ہیں کہ یہ (قرآن) ٹھیک تمہارے رب ہی کی طرف سے نازل ہوا، پس تم کبھی شک کرنے والوں میں شامل نہ ہونا
220 اللہ کے سوا اور کسی کو اپنا حکم اور منصف بنانا ظلم ہے ۔ والعیاذ باللہ : سو استفہام انکاری کے طور پر اللہ کے رسول کی زبان سے ارشاد فرمایا گیا کہ کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور حکم اور منصف تلاش کروں۔ جبکہ اس نے یہ کتاب مفصل اتار دی جس میں حق و باطل، نیک و بد، صحیح و غلط اور اسباب سعادت و شقاوت کو اس طرح کھول کر بیان کردیا گیا کہ کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی ۔ فَلِلّٰہِ الْحَمْدُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۔ سو استفہام یہاں پر انکاری ہے۔ یعنی ایسے نہیں ہوسکتا کہ میں اس کتاب مفصل کے اتارے جانے کے بعد اور اس کے ہوتے ہوئے اللہ کے سوا اور کسی کو اپنا حکم اور منصف تلاش کروں کہ ایسا کرنا ظلم ہوگا ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو اس ارشاد سے مشرکین کے مجادلے کا پیغمبر کی طرف سے جواب دے دیا گیا۔ اور ان لوگوں کی حجت بازی کو قطع فرما دیا گیا کہ میرے لئے آخر یہ کس طرح ممکن ہوسکتا ہے کہ میں اللہ کے سوا کسی اور کو حکم اور منصف تلاش کروں جبکہ اس نے تمہاری طرف اس کتاب کو مفصل کر کے اتار دیا ہے جس میں ہر چیز کا تفصیل کے ساتھ فیصلہ فرما دیا گیا ہے ؟ اب تم ہی لوگ سوچو کہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتاری ہوئی یہ کتاب مفصل ہے اور دوسری طرف تم لوگوں کی بےسند باتیں ہیں۔ لہٰذا اب تم ہی لوگ بتاؤ کہ ان میں سے کس کی بات مانی جانے کے لائق ہے ؟ 221 پس تم کبھی شک کرنے والوں میں سے نہ ہونا : کہ اس درجہ کی اس کامل شہادت اور مکمل کتاب کے بعد اور کسی کی شہادت کی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی۔ خطاب اگرچہ بظاہر آنحضرت ﷺ سے ہے مگر سنانا دراصل دوسروں کو ہے۔ اور یہ بلاغت کا ایک اہم اور معروف انداز و اسلوب ہے جس سے معنی مقصود کی ادائیگی و تعبیر میں جو قوت اور تاکید پیدا ہوتی ہے وہ اس کے بغیر نہیں پیدا ہوسکتی۔ پس اہل بدعت کے جن لوگوں نے اس کے ترجمے میں " اے سننے والے " کے الفاظ کا اضافہ کرلینے سے یہ سمجھا کہ ہم نے کوئی بڑا تیر مار دیا ہے، جیسا کہ ان کے حواریوں کا کہنا ہے، وہ محض ان لوگوں کی ایک خوش فہمی ہے کہ اول تو اس سے وہ زور کلام باقی نہیں رہتا جو کہ ایسی تعبیر اور اس اسلوب بیان سے اصل میں مقصود ہوتا ہے۔ اور دوسرے اس لئے کہ اس طرح کے ترجمہ سے وہ مطلب پھر بھی حاصل نہیں ہوسکتا جو کہ اہل بدعت اس سے حاصل کرنا چاہتے ہیں کیونکہ وحی خداو ندی کے اصل مخاطب اور سب سے پہلے سننے والے تو بہرحال آنحضرت ۔ ﷺ ۔ ہی ہیں۔ تو پھر بھی بات وہیں کی وہیں رہی۔ پھر اس تکلف کا فائدہ اور ضرورت ہی کیا ؟ اس لئے صحیح طریقہ وہی ہے جو ہم نے ابھی عرض کیا ہے کہ خطاب اگرچہ بظاہر آنحضرت ﷺ سے ہے مگر سنانا دراصل دوسروں کو ہے۔ اور یہی بات تمام ثقہ مفسرین کرام کہتے ہیں۔ یعنی " الخطاب للنبی ﷺ والمرادُ بہ غیْرہْ " (ابن کثیر، خازن، جامع، صفوۃ البیان، صفوۃ التفاسیر وغیرہ) ۔ ابن کثیر کہتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ ایسے ہی ہے جیسا کہ سورة یونس کی یہ آیت کریمہ ہے { فَاِنْ کُنْتَ فِیْ شَکٍّ مِّمَّا اَنْزَلْنَا اِلَیْکَ فَاسْاَلِ الَّذِیْنَ یَقْرَؤُوْنَ الْکِتَاب مِنْ قَبْلِکَ } الاٰیۃ (یونس :94) ۔ اسی لئے روایت میں وارد ہے کہ اس کے جواب میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا " لَا اَشُکُّ وَلَا أَسْاَلُ " یعنی " نہ مجھے اس طرح کا کوئی شک ہے اور نہ میں اس بارے میں کسی سے پوچھتا ہوں "۔ (ابن کثیر، محاسن التاویل وغیرہ) ۔ بہرکیف اس ارشاد عالی سے واضح فرما دیا گیا کہ ِاس کا کلام حق سچائی میں بھی کامل ہوگا اور عدل میں بھی کامل ہوگیا ۔ والحمد للہ جل وعلا -
Top