Tafseer-e-Madani - Al-An'aam : 110
وَ نُقَلِّبُ اَفْئِدَتَهُمْ وَ اَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ یُؤْمِنُوْا بِهٖۤ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّ نَذَرُهُمْ فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ۠   ۧ
وَنُقَلِّبُ : اور ہم الٹ دیں گے اَفْئِدَتَهُمْ : ان کے دل وَاَبْصَارَهُمْ : اور ان کی آنکھیں كَمَا : جیسے لَمْ يُؤْمِنُوْا : ایمان نہیں لائے بِهٖٓ : اس پر اَوَّلَ مَرَّةٍ : پہلی بار وَّنَذَرُهُمْ : اور ہم چھوڑ دیں گے انہیں فِيْ : میں طُغْيَانِهِمْ : ان کی سرکشی يَعْمَهُوْنَ : وہ بہکتے رہیں
اور ہم پھیر دیں گے ان کے دلوں کو اور ان کی نگاہوں کو (حق کے سمجھنے اور دیکھنے سے) جس طرح کہ یہ ایمان نہیں لائے اس (قرآن عظیم) پر پہلی مرتبہ اور انھیں چھوڑ دیں گے کہ یہ اپنی سرکشی میں پڑے بھٹکتے رہیں
211 خبث باطن کا نتیجہ محرومی ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہِ : سو اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ دستور خداوندی یہی ہے کہ طلب صادق سے محروم انسان نور حق سے محروم رہتا ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ ہم پھیر دیں گے ان لوگوں کے دلوں اور ان کی نگاہوں کو یعنی ہمارا قانون اور دستور یہی ہے کہ جو شخص طلب صادق سے محروم ہوتا ہے وہ قبول حق کی نعمت سے محروم ہوجاتا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ پس معلوم ہوا کہ ایمان و یقین کی دولت محض عطا و بخشش خدا وندی سے ملتی ہے جو کہ مترتب ہوتی ہے دل کی سچی تڑپ اور طلب صادق پر۔ جس کو اللہ پاک خوب خوب جانتا ہے۔ کیونکہ طلب اور عدم طلب کا تعلق دل سے ہوتا ہے۔ اور دلوں کی جملہ کیفیات کو وہی وحدہ لاشریک جان سکتا ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ بہرکیف اس ارشاد ربّانی میں اہل ایمان کو بتایا جا رہا ہے کہ اس غیبی حقیقت کو تم لوگ نہیں جان سکتے کہ ان لوگوں نے ایسی نشانیاں دکھانے کے باوجود ایمان نہیں لانا۔ (تفسیر المراغی وغیرہ) ۔ سو عناد اور ہٹ دھرمی کا کوئی علاج نہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو یہی مطلب ہے اس ارشاد ربانی کا کہ " ہم پھیر دیں گے ان کے دلوں کو اور پلٹ دیں گے ان کی نگاہوں کو "۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی سنت اور اس کا دستور جو اس کی اس کائنات میں کارفرما ہے یہی ہے کہ ایسے ہٹ دھرم لوگوں کو ان کے عناد اور ہٹ دھرمی کی بناء پر نور حق و ہدایت سے اسی طرح محروم کردیا جاتا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ ہمیشہ اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے ۔ آمین۔ 212 کفر و انکار کی ایک نقد سزا کا ذکر وبیان : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ کفر و انکار اور بےایمانی کی ایک نقد سزا سرکشی میں بھٹکتے رہنا ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ جو ایسے لوگوں کو اس دنیا ہی میں ملتی رہتی ہے اور اس نقد سزا میں ایسے لوگ اس دنیا میں ہی میں برابر مبتلا رہتے ہیں جبکہ اصل عذاب ایسے بدبختوں کو آخرت کے اس ابدی جہاں میں ملے گا جس کی نہ کوئی حد ہے اور نہ انتہاء ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو کفر و سرکشی میں پڑے بھٹکتے رہناکفر و بےایمانی کی پہلی اور فوری سزا ہے جو ایسے لوگوں کو نقد ملتی ہے۔ پھر تردد و پریشانی اور حیرانی و سرگردانی کی جس دلدل میں یہ لوگ پھنسے ہوتے ہیں اور کفر و بےایمانی کی جن اندھیریوں اور تاریکیوں میں یہ لوگ ڈوبے ہوتے ہیں، اس کی بناء پر یہ اپنی آخرت اور اپنے انجام محتوم سے غافل و بےفکر ہو کر اپنی فرصت عمر اور متاع حیات کو یونہی ضائع کر رہے ہوتے ہیں۔ اور یہ خسارہ وہ خسارہ ہے جس کی پھر تلافی ممکن نہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ نیزطغیان کے لفظ سے ایسے لوگوں کی محرومی کے باعث اور سبب کو بھی آشکارا کردیا کہ ان کی وہ طغیانی اور سرکشی وہ ہے جس میں ایسے لوگ اپنی دنیاوی نعمتوں کی بنا پر مبتلا ہوجاتے ہیں کہ یہ لوگ ان نعمتوں کو اللہ تعالیٰ کی عطاء و بخشش سمجھنے کی بجائے ان کو اپنی قوتوں اور قابلیتوں کا نتیجہ سمجھنے لگتے ہیں۔ جس پر یہ شکر گزاری کی بجائے سرکشی اور کفران نعمت میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور اس طرح ایسے لوگ اللہ کی بخشی ہوئی نعمت کو نقمت اور وسیلہ خیر کو ذریعہ شر بنا لیتے ہیں جو کہ خسارے پر خسارہ ہے ۔ والعیاذ باللہ -
Top