Tafseer-e-Madani - Al-An'aam : 107
وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ مَاۤ اَشْرَكُوْا١ؕ وَ مَا جَعَلْنٰكَ عَلَیْهِمْ حَفِیْظًا١ۚ وَ مَاۤ اَنْتَ عَلَیْهِمْ بِوَكِیْلٍ
وَلَوْ : اور اگر شَآءَ : چاہتا اللّٰهُ : اللہ مَآ اَشْرَكُوْا : نہ شرک کرتے وہ وَمَا : اور نہیں جَعَلْنٰكَ : بنایا تمہیں عَلَيْهِمْ : ان پر حَفِيْظًا : نگہبان وَمَآ : اور نہیں اَنْتَ : تم عَلَيْهِمْ : ان پر بِوَكِيْلٍ : داروغہ
اور اگر اللہ چاہتا تو یہ لوگ کبھی شرک نہ کرتے3 اور ہم نے آپ کو ان پر کوئی نگہبان نہیں بنایا اور نہ ہی آپ (ان کو ان کے اعمال بد پر سزا دینے کے) مختار ہیں
204 جبری ایمان نہ مطلوب ہے نہ معتبر : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ جبری ایمان نہ مطلوب ہے نہ معتبر ورنہ اگر اللہ چاہتا تو یہ لوگ کبھی شرک نہ کرتے کہ ان کو طبعی اور جبری طور پر ایسا بنادیا جاتا کہ یہ اس کی مشیت کے خلاف کچھ کر ہی نہ سکتے، جیسا کہ کائنات کی ہر چیز اس کی مشیت وتکوین کی پابند ہے۔ مگر ایسا جبری ایمان تو اسے منظور ہی نہیں کہ یہ ابتلاء و آزمائش کے مقتضیٰ کے خلاف ہے۔ اور اس کے یہاں منظور و معتبر و ہی ایمان ہے جو اپنی مرضی و اختیار سے ہو کہ ثواب و عقاب اور جزا و سزا کا دارومدار اسی پر ہے۔ پس جو اپنی مرضی اور سچے دل سے ایمان لائے گا وہی انعام کا مستحق قرار پائے گا۔ اور جو اس سے منہ موڑے گا وہ اس کی سزا پائے گا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ دین کے معاملہ میں جبر کو پسند نہیں فرماتا کہ یہ اس کی حکمت اور ابتلاء و آزمائش کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ ورنہ اگر اس کی مشیت ایسے ہوتی تو ان لوگوں کی کیا جان تھی کہ یہ شرک کرتے اور جب مشیت الٰہی نے یہی چاہا ہے تو آپ کو ان کے بارے میں زیادہ فکر مند اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ آپ کی ذمہ داری تو صرف پیغام حق کو پہنچا دینا ہے اور بس۔ 205 پیغمبر کا کام تبلیغِ حق اور انذار وتبشیر ہے اور بس : ۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ ہم نے آپ کو ان پر کوئی نگہبان بنا کر نہیں بھیجا اور نہ ہی آپ ان کے ذمہ دار ہیں کہ آپ خواہی نخواہی ان کو منوا کر ہی چھوڑیں۔ پس آپ کو ان کی زیادہ فکر کرنے کی ضرورت نہیں کہ آپ کی مسؤلیت اور ذمہ داری صرف اس قدر ہے کہ آپ حق کا وہ پیغام بلاکم وکاست ان کو پہنچا دیں جو آپ ﷺ کے رب کی طرف سے بذریعہ وحی آپ کو ملا ہے۔ اس سے بڑھ کر آپ ان کے لئے فکر مند اور پریشان نہ ہوں ۔ { فَلا تَذْہَبْ نَفْسُکَ عَلَیْہِمْ حَسَرَاتٍ } ۔ (فاطر : 8) سو پیغمبر کا اصل کام اور ان کی ذمہ داری تبلیغ وتعلیم حق ہوتا ہے اور انذار وتبشیر کہ ماننے والوں کو سدابہار کامیابی کی بشارت و خوشخبری سنائیں اور نہ ماننے والوں کو انکے مآل و انجام سے خبردار کردیں اور بس۔ اس سے بڑھ کر حق کو منوا لینا اور اس کو قبول قرار دینا نہ ان کی ذمہ داری ہوتی ہے اور نہ انکے بس میں۔
Top